باعث افتخار انجنیئر افتخار چودھری
آج سے 28 برس پہلے عمران خان نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی ان کے با اعتماد ساتھیوں میں پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے سابق صدر حفیظ خان عمران خان کے لندن کے دنوں کے ساتھی نعیم الحق اور جدہ میں مقیم میرے دوست احسن رشید ،مشاہد حسین کے ایک بھائی موءفق نام تھا انہوں نے پارٹی کی بنیاد رکھی تحریک انصاف کا نام بے ان لوگوں نے شاید اسی لیے تحریک رکھا تھا کہ اسے تادیر انصاف کے حصول کے لیے کوشش کرنا ہو گا ۔ وہ یہ جانتے تھے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ انصاف ہے عمران خان کا یوں تو میں نے اس وقت دیا جب تحریک انصاف قائم بھی نہیں تھی عمران خان کہ اعزاز میں بھارہ کہو میڈیکل یونیورسٹی کے مہتمم ڈاکٹر غلام اکبر نیازی نے جدہ میں ایک بڑے فنکشن کا انعقاد کیا عمران خان ورلڈ کپ جیتنے کے بعد سعودی امریکن بینک کی دعوت پر مملکت خداداد سعودی عرب میں ائے تھے اور اس دعوت کے پیچھے شوکت ترین صاحب کا ہاتھ میں جب عمران خان ائے تو ان کے ساتھ شوکت ترین بھی تھے ایک بڑا اجتماع ہوا 600 ریال ایک شریک محفل کو دینا تھے جو بعد میں انجینئر عبدالرفیع نے یہ کہہ کر تمام پاکستانیوں کو اندر انے کی اجازت دلوا دی جو کچھ بھی جتنا بھی اس سے ہو سکتا تھا وہ ان لوگوں نے دیا اور حال میں تشریف لے ائے منتظمین کی جو کمیٹی تھی اس میں تمام مکاتب فکر کے لوگ تھے اس وقت تو تحریک انصاف تھی نہیں تو مسلم لیگ پیپلز پارٹی کے تمام لوگ اس کار خیر میں حصہ لینے کے لیے اکٹھے ہوئے بڑا اچھا فنکشن ہوا اس فنکشن کی انتظامی کمیٹی میں میں بھی تھا میرے لیے وہ دن بڑا یادگار تھا کہ میں نے اپنی بیگم کو مستشفہ میں داخل کرانے کے بعد وہ فنکشن سنبھالا جسے میں کبھی نہیں بھول سکتا کہ قومی کاز کے لیے میں نے اپنی جانثار بیوی کا بھی نہیں خیال کیا اور انہیں اللہ کے حوالے کر کے مکہ روڈ کی لوٹو کے حال میں پہنچ گیا بڑا اچھا فنکشن ہوا اس کے بعد ہم پاکستان ایمبیسی سکول گئے وہاں کے چھوٹے چھوٹے بچوں سے فنڈ اکٹھا کیا یہ تھی ہماری عمران خان سے محبت اس فنکشن میں عمران خان نے بہت سی باتیں کی میرے بیٹے ڈاکٹر نبیل افتخار چوھدری جو گجرانوالہ میں ڈینٹسٹ ہیں انہوں نے عمران خان کو پھول پیش کیا عمران خان نے اپنی تقریر میں شوکت خانم ہاسپٹل کے بارے میں بڑی اچھی باتیں کی ہاں البتہ وہاں میں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ اپ نے اگر ہاسپٹل بنانا ہے اور ایک سے زیادہ ہاسپٹل بنانا ہے تو اپ کے ہاتھ میں طاقت ضروری ہے میں نے وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور کا ذکر کیا اور ان سے کہا کہ جب تک ہمارے پیارے نبی مدینہ منورہ نہیں گئے اور اقتدار نہیں سنبھالا تو اپ کچھ بھی نہیں کر سکتے میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ تجویز ریاست مدینہ کے حوالے سے اس وقت 92 میں جدہ میں پیش کی گئی تھی ہو سکتا ہے کسی اور نے بھی پیش کی ہو لیکن مجھے یاد ہے کہ یہ میری تجویز تھی یاد رہے کہ اس وقت تک ایس ایم رشید عمران خان کے متعارف نہیں ہوئے تھے یہ بعد کی بات ہے کہ جب وہ عمران خان سے ملے اور یقینا یہ تین چار سال کا عرصہ ہی ہوگا کیونکہ احسن بھائی ایک بڑی کمپنی میں بڑے عہدے پر فائض تھے اور کسی بھی پارٹی کو چلانے کے لیے ایسا بڑی اہمیت رکھتا ہے جس کا اظہار لاہور کے بڑے عوامی جلسے میں بھی عمران خان نے کیا گھر سے میں اس بات سے واقف ہوں کہ احسن رشید اخری دنوں میں پارٹی سے بہت نالاں تھے ان سے پنجاب کی صدارت چھین لی گئی تھی اس بات کا ذکر کوئی بھی نہیں کرے گا لیکن میں حلفا بات کروں گا کہ ایس ایم سی نے مجھ سے ذکر کیا تھا کہ میرے ساتھ سازش ہوئی ہے یہ احسن رشید کی خوبی تھی کہ انہوں نے اپنی جان لڑا دی اس پارٹی کے لیے پیسہ خرچ کیا وہ اور ہماری بھابھی نادرہ اس پارٹی کے لیے تن من دھن انہوں نے قربان کیا یہ اج جو اپ دیکھ رہے ہیں پہلی تصویر جس کے پیچھے لکھا ہوا ہے امین زکی شبیر سیال یہ ہمارے دو دوست ہیں جو شروع کے دن میں ایس ایم سی کے ساتھ مل کے انہوں نے کام کیا تھا اور دونوں اسمبلیوں سے محروم ہیں ان کی محرومی کی وجہ سے جب وہ شکوہ یا شکایت کرتے ہیں تو پھر ان کے شکوے اور شکایت کو ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ پارٹی کے خلاف جا رہے ہیں عزت تو یہ تھی کہ ہم دو تین مرتبہ مین زکی کو پارٹی میں ٹکٹ دے کے اسمبلی میں پہنچاتے بڑے بڑے چاپلوس لوگ جو ہیں وہ پارٹی کا ٹکٹ لے کے اگئے اس مسئلے کو اج کے دن میں ڈسکس نہیں کرنا چاہتا شاید اسی لیے تحریک انصاف کو تحریک کہا گیا کہ اس میں انصاف کبھی بھی نہیں ہوگا اپ کو جدوجہد کرنا پڑے گا اس پارٹی کے لیے جان لڑانے والے جو لوگ ہیں ان کے ساتھ بھی جو کچھ ہو رہا ہے وہ مجھے پتہ ہے مجھے بتاتے ہیں لوگ میں بڑا ہوں ان کا مجھے شہریار افریدی اور علی محمد خان انکل کہتے ہیں قاسم سوری انکل کہتے ہیں بڑا کہتے ہیں مجھ سے دل کی بات کرتے ہیں بہرحال وہ فنکشن ہوا پھر اس دوران یہ لوگ لاہور میں اکٹھے ہوئے حفیظ خان پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹ یونین کے صدر تھے بھٹو دور میں بھی وہ بڑے معروف ہوئے اور اس کے بعد جاوید ہاشمی جیسا شخص جو ہے وہ بھی ایا باجی شکور ائے لیکن حفیظ خان ہیں پارٹی جوائن کی اور حفیظ خان اوورسیز پاکستانی تھے پہلے یہاں پہ القسیم بریدہ میں ایک کمپنی کو ہیڈ انہوں نے کیا اور پھر بعد میں کینیڈا چلے گئے اور کینیڈا جانے والے بس اب انہی کے ہو کے رہ گئے ہیں بیرون ملک پاکستانی بے شک اپنے اپ کو بہت بڑا پاکستانی سمجھتے ہیں اور میں بھی سمجھتا ہوں لیکن وہ پاکستان میں رہ کے وہ مقابلہ نہ کر سکے ایس ایم رشید نے اچھی نوکری کی اور نوکری چھوڑ کے پاکستان پہنچے تحریک انصاف کے ساتھ یہ بڑا المیہ رہا ہے کہ یہاں پہ بے شمار لوگ ایسے ائے جو چاپلوس تھے اور جنہوں نے اقتدار میں رہ کر بہت مال کمایا ان میں عمران خان کے بہت قریبی دوست بھی شامل ہے اب میں ان کا نام نہیں لینا چاہتا ایک یہاں جدہ میں بھی ہے اور پنڈی والا بھی ہے اور دوسرا بھی پنڈی میں ہے سب نے مال کمایا چھوٹی چھوٹی گاڑیاں تھیں ان کے پاس بعد میں رینج روور ان کے پاس اگئی اور لاکھوں اور کروڑوں کا مال بنایا میں بعض اوقات سوچتا ہوں کہ ہم نے ساڑھے تین سال میں جتنی کرپشن کی اور دیکھی بعد میں ہمیں پتہ چلا میں نہیں سمجھتا کہ نواز شریف اور زرداری کی ذات کی کرپشن کے علاوہ جو ان کی پارٹی میں کرپٹ لوگ تھے ان سے زیادہ ہمارے لوگوں نے کرپشن کی علی امین گنڈاپور اس دن کہہ رہے تھے کہ میں کرپشن نہیں ہونے دوں گا جب وہ کشمیر میں تھے تو کیا کچھ ہوتا رہا جی بی کی ٹکٹوں میں کیا ہوا اور اس وقت 202 کی ٹکٹوں میں کیا ہوا غائب تو ہمیشہ یہ کہتا ہے کہ میرا کوئی نہیں بھائی بہن کچھ نہیں ہوا اور پھر کیا ہوا اس سومالی پنجاب کی ٹک ٹاک کے بارے میں تو اس تحریک کو اب چلانے کی ضرورت ہے تیز کرنے کی ضرورت ہے جدوجہد تیز ہو یہ ہم سب لوگوں کا کام ہے باقی جدوجہد اپ نے عمران خان کی بھی دیکھی ہم نے 2008 کا الیکشن بائیکاٹ کرتے ہوئے بھی دیکھا اخری وقت تھا وہ جائے نماز پہ بیٹھے تھے تو میں نے کہا کہ اپ بائیکاٹ کریں عمران خان کہنے لگے کہ نواز شریف الیکشن لڑے گا تو میں نے یہ بات کہی تھی کہ نواز شریف کے پاس تو کچھ ہے ہمارے پاس کیا ہیں وکلا ہی تو ہیں لہذا ایسا نہ کریں اور وہ بائیکاٹ ہو پھر پارٹی چلتی رہی 2013 کا الیکشن ہوا اور اس 2013 کے الیکشن میں عمران خان بلندی سے نیچے گر گئے اور اسی طرح ٹکٹوں کے معاملات دوسروں کے حوالے ہو گئے 2018 میں بھی اسی طرح ہی ہوا اور 2024 میں بھی یہ تو یہ جدوجہد انصاف کی ہے اس سے اپ نے پیچھے نہیں ہ ٹنا مایوس تو نہیں ہوں لیکن یہ جدوجہد تیز کریں گے ہم پھر ایسا ہوتا ہے کہ جو لوگ شک ہی ہوتے ہیں جنہیں شکوہ ہوتا ہے ان کی بات تلخ ہوگی اور اس تلخی کی بنیاد پہ یہ کہا جائے کہ فلاں نے فلاں بات کی تو پھر یہ بھی تو سوچ لینا چاہیے کہ کسی کے مقدر اور نصیب اور اس کی پولیٹیکل جدوجہد سے جو اپ کھلواڑ کرتے ہیں تو وہ اپ کو سلام تو نہیں پیش کرے گا تحریک انصاف اج بھی اسی جگہ کھڑی ہے جس جگہ 28 سال پہلے کھڑی تھی ہجوم بہت ہے لیکن اج دیکھیے کہ پاکستان تحریک انصاف کا کارکن جو ہے وہ باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں ہے کیوں نہیں نکلتا وہ اس سے پتہ ہے کہ اس دن اس کی جدوجہد کو بیچ دیا جائے گا اج بہت پریشان ہوں میں محترمہ بشری بی بی کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ان کو قتل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں غائب پریشان ہیں اور وہ کہہ دیتا ہے اندر سے کہ میں فلاں شخص کو نہیں چھوڑوں گا اور دشمن اتنے طاقتور ہے کہ اگر خدانخواستہ خدانخواستہ محترمہ کے ساتھ کچھ ہو جاتا ہے تو سوائے دو ایک کے بندوں کے کوئی باہر نہیں نکلے گا اور اس بندے کو بھی یہ بات کہہ کے چپ کرا دیا جاتا ہے کہ وہ سیریس نہیں ہے جو سیریس ہیں وہ بندہ نہیں نکال سکتے جو سیریس نہیں ہے وہ بندے نکال سکتے ہیں تحریک انصاف اج ایک ایسے دوراہے پہ کھڑی ہے کہ جہاں پاکستان تحریک انصاف کا کارکن ان لٹیروں سے پوچھتا ہے کہ تم نے عمران خان کے نام پہ سب کچھ لوٹا اس پارٹی کو لوٹا ہے میں ان لوگوں کا نام نہیں لوں گا لیکن اپ کو پتہ ہے کہ جن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا وہ اج محلوں کے وارث بن چکے ہیں اور سونے کے محلات بنا چکے ہیں اور کارکن یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ پاک وہ وقت ائے کہ جب یہ عمران خان کا نام لینے والے دوزخ کی بھٹی میں چلیں تحریک انصاف اج میں یہی کہوں گا کہ ایک شعر میں بڑا پرانا شعر ہے کہ
قوم کے قصر کی تعمیر وفا مانگتی ہے
اس کی بنیاد میں انصاف کا پتھر رکھ دو