شیدو ویلا نہ بنیں
میاں محمد بخش نے کیا خوب کہا تھا:
“پردیسیاں نوں حال نہ کوئی پچھے، دکھاں بھریاں راتاں۔”
یہ شعر ان تمام لوگوں کی زندگی کا عکاس ہے جو پردیس جانے کے لیے اپنی زمین، گھر، خاندان اور وطن کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کے خواب بڑے ہوتے ہیں، مگر حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے۔
آج کے دور میں وسطی پنجاب کے نوجوانوں، خاص طور پر گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور دیگر علاقوں کے افراد، غیر قانونی راستوں سے یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ صرف ایک سماجی یا معاشی مسئلہ نہیں بلکہ ایک قومی المیہ ہے۔ یہ لوگ محض غربت یا بھوک کی وجہ سے نہیں جا رہے بلکہ ان کے ذہن میں یہ خیال بٹھا دیا گیا ہے کہ یورپ میں سب کچھ آسان اور بہتر ہے۔ وہ اپنے آس پاس کی حقیقت کو نظرانداز کر دیتے ہیں اور خوابوں کے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں۔
میاں محمد بخش نے اس بات کو برسوں پہلے سمجھ لیا تھا کہ پردیسی کی زندگی میں عزت اور سکون کی کمی ہوتی ہے۔ پردیس میں جا کر زیادہ سے زیادہ آپ کیا حاصل کرتے ہیں؟ ایک بڑی کوٹھی؟ ایک گاڑی؟ کچھ بینک بیلنس؟ مگر کیا یہ سب کچھ انسان کی اصل خوشی کا ضامن ہو سکتا ہے؟ پردیس میں رہنے والے لوگوں کی زندگیاں اکثر تلخ ہوتی ہیں۔ وہ وہاں جسمانی محنت کرتے ہیں، اپنے وطن کی مٹی سے دور ہوتے ہیں، اور ماں باپ، بھائی بہن، اور عزیز و اقارب کے ساتھ وقت گزارنے کی خوشیوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔
یورپ میں جا کر، چاہے آپ قانونی طور پر جائیں یا غیر قانونی طریقے سے، وہاں کی زندگی میں بہت سی مشکلات ہوتی ہیں۔ محنت مزدوری کرنے والے پاکستانیوں کی اکثریت اپنے خوابوں کو حقیقت بنتے نہیں دیکھتی۔ ان کا وقت، پیسہ، اور توانائیاں صرف ایک بہتر زندگی کی تلاش میں ختم ہو جاتی ہیں، لیکن وہ خوشی اور سکون جو اپنے وطن میں رہ کر ملتا ہے، پردیس میں ناپید ہوتا ہے۔
غیر قانونی طور پر یورپ جانے کا خواب دیکھنے والے لوگ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر سمندر عبور کرتے ہیں۔ وہ بھاری رقوم مافیا کو ادا کرتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کا خواب پورا ہو جائے گا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ راستے میں کئی نوجوان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، کچھ جیلوں میں قید ہو جاتے ہیں، اور باقی زندگی بھر غیر قانونی تارکین وطن کے داغ کے ساتھ جیتے ہیں۔ یہ مافیا عناصر ان کے خوابوں کو بیچتے ہیں، ان کے ارادوں کا مذاق اڑاتے ہیں، اور ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر اپنی جیبیں بھرتے ہیں
پاکستان، ہماری زمین، ہماری مٹی، ہم سب کو پکار رہی ہے۔ یہ ہمارے اپنے ہیں، ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے، اور یہیں ہمیں اپنی شناخت اور خوشی مل سکتی ہے۔ آج پاکستان کو نوجوانوں کی ضرورت ہے، ان کی توانائی، ان کی محنت، اور ان کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی طاقت۔ جو لوگ یہاں سے پردیس جاتے ہیں، وہ اگر اپنے ملک میں رہ کر محنت کریں، ریڑھی لگائیں، یا چھوٹا کاروبار کریں، تو نہ صرف وہ خود خوشحال ہوں گے بلکہ ملک کی ترقی میں بھی کردار ادا کریں گے۔
آپ کی یہ بات بالکل درست ہے کہ اگر کسی کو بیرون ملک جانا ہے تو وہ قانونی راستے سے جائے۔ غیر قانونی طریقے سے باہر جانے سے نہ صرف خود کی زندگی خطرے میں ڈالنا ہے بلکہ ملک کی عزت کو بھی داغدار کرنا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کے عمل کو آسان اور شفاف بنائے، اور غیر قانونی راستوں کو ختم کرنے کے لیے سخت قوانین نافذ کرے۔
پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت کو مل کر ان مافیا عناصر کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے جو نوجوانوں کو غیر قانونی طور پر بیرون ملک بھیجنے کا دھندہ کرتے ہیں۔ انہیں سخت ترین سزائیں دی جائیں تاکہ یہ کاروبار ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو شعور دینے کے لیے میڈیا، تعلیمی ادارے اور سماجی تنظیمیں مل کر کام کریں۔
پاکستان کے نوجوانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وطن کی مٹی سب سے قیمتی ہے۔ یہاں رہ کر، قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے، محنت کریں اور اپنی زندگی کو بہتر بنائیں۔ اگر بیرون ملک جانا بھی ضروری ہو، تو قانونی راستہ اختیار کریں۔ پاکستان آپ کو پکار رہا ہے، اس مٹی کو آپ کی ضرورت ہے
اللہ تعالی ہم سب کو سمجھ دے کہ ہم اپنے ملک اور اپنی جڑوں سے جڑے رہیں، اور اپنی توانائیاں اسی کی ترقی کے لیے وقف کریں۔ آمین۔اب زیادہ سے زیادہ شیدو ویلا بنیں گے میری درخواست ہے آپ شیدو ویلا نہ بنے