باعثِ افتخار: انجینئر افتخار چودھری
کشمیری قوم ہمیشہ سے اپنی غیرت، حمیت اور حق کے لیے کھڑے ہونے کی روایت کے لیے جانی جاتی ہے۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جب بھی کشمیریوں کے حقوق پر ضرب لگی، چاہے وہ انڈین ہیلڈ کشمیر میں ظلم و ستم کی صورت میں ہو یا پاکستان میں معاشی ناانصافی کی شکل میں، کشمیری عوام نے اپنی آواز بلند کی اور اپنے حق کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہوئے۔ ابھی چند ماہ قبل ہی جب مہنگائی نے آٹے اور بجلی کی قیمتوں کو آسمان تک پہنچا دیا، تو کشمیری عوام نے پر امن احتجاج کے ساتھ اپنے مطالبات پیش کیے اور حکومت کو عوامی دباؤ کے آگے جھکنے پر مجبور کر دیا۔
یہ سب واقعات اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ کشمیری اپنے حقوق اور انصاف کے لیے کھڑے ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ مگر آج ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے جس نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے: میرپور کے رہائشی محسن چوہان کا اغوا۔ محسن چوہان، جس نے سوشل میڈیا پر ایک طنزیہ ویڈیو بنائی تھی، اچانک لاپتہ ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے وزیراعلیٰ پنجاب پر تنقیدی الفاظ کہے تھے، اور اگر واقعی وہ قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا تھا، تو قانون کی موجودگی میں اسے عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے تھا، نہ کہ اسے اس طرح اغوا کر لیا جاتا۔
یہ واقعہ نہ صرف محسن چوہان کے اہلِ خانہ کے لیے پریشانی کا باعث ہے بلکہ کشمیری عوام کے لیے بھی ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ کشمیری عوام جنہوں نے ہمیشہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی، آج اپنے ایک نوجوان کے اغوا پر خاموش کیوں ہیں؟ کیا یہ مسئلہ کسی فردِ واحد کا ہے یا یہ ایک اجتماعی مسئلہ ہے جس پر سب کو سوچنا چاہیے؟
محسن چوہان کے اغوا پر مختلف حلقوں سے آواز اٹھائی گئی۔ شہباز گل نے وی لاگ کیا، قاسم سوری نے بھی اس معاملے پر سوال اٹھایا کہ آخر اس نوجوان کو کیوں غائب کیا گیا ہے؟ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ کشمیری عوام، جنہوں نے معاشی مسائل پر اپنی آواز بلند کی تھی، اس واقعے پر زیادہ سرگرم نظر نہیں آ رہے۔
یہ سوال اٹھانا فطری ہے کہ اگر ہم اپنے مسائل پر تو آواز بلند کرتے ہیں، تو جب ہمارے اپنے نوجوان کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آتا ہے تو ہم خاموش کیوں ہو جاتے ہیں؟ کیا انصاف کا تقاضا نہیں کہ ہر قسم کی زیادتی اور ناانصافی کے خلاف یکساں ردعمل دیا جائے؟
محسن چوہان کا معاملہ صرف ایک سوشل میڈیا ویڈیو تک محدود نہیں۔ یہ ایک بنیادی انسانی حق، آزادی اظہار رائے، اور قانونی عملداری کا معاملہ ہے۔ اگر کسی نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو اسے قانونی طریقے سے نمٹا جانا چاہیے، نہ کہ غیر قانونی اقدامات کے ذریعے۔ ایسے واقعات ہمارے معاشرے میں انصاف کی فراہمی اور انسانی حقوق کے تحفظ پر سوالات اٹھاتے ہیں۔
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ محسن چوہان کے اغوا میں مبینہ طور پر شامل افراد بھی کشمیری پس منظر رکھتے ہیں۔ اگر کشمیری عوام اپنے ہی لوگوں کے مسائل پر خاموش رہیں گے، تو یہ ایک خطرناک رجحان بن سکتا ہے۔ انصاف اور حقوق کی فراہمی صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر فردِ معاشرہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ حق اور سچ کے لیے کھڑے ہوں۔
یہ وقت ہے کہ کشمیری عوام اپنے اندر جھانکیں اور سوچیں کہ ان کی غیرت اور حمیت صرف معاشی مسائل تک محدود ہے یا وہ ہر قسم کی ناانصافی کے خلاف بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔ محسن چوہان کا معاملہ ایک موقع ہے کہ ہم اپنی اجتماعی ذمہ داری کو پہچانیں اور اپنی آواز بلند کریں، مگر پر امن اور قانونی دائرے میں رہتے ہوئے۔
یہ مسئلہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اگر آج ہم خاموش رہے تو کل کسی اور کے ساتھ بھی یہی سلوک ہو سکتا ہے۔ انصاف کی فراہمی اور انسانی حقوق کا تحفظ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ پوری قوم کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں ایک پرامن معاشرے کی تعمیر کے لیے انصاف اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہوگا۔
کشمیری عوام نے ہمیشہ ظلم کے خلاف آواز بلند کی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ اس بار بھی انصاف کے اصولوں کو فراموش نہیں کریں گے۔ پر امن احتجاج اور قانونی طریقوں کے ذریعے اپنے حق کے لیے کھڑا ہونا ہی اصل غیرت کا مظہر ہے۔ ہمیں ایک مثبت مثال قائم کرنی چاہیے کہ کشمیری قوم نہ صرف اپنے حقوق کے لیے کھڑی ہوتی ہے بلکہ اپنے لوگوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر بھی خاموش نہیں رہتی۔
یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر سوچیں اور انصاف کی حمایت میں اپنی آواز بلند کریں، تاکہ کسی اور محسن چوہان کو ایسے حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ایک متحد، پر امن اور انصاف پسند معاشرہ ہی ہماری اصل پہچان ہے۔
تمبر کا ڈنڈا کہاں ہے؟