درخت پر آویزاں ایک نشان پر یہ الفاظ لکھے ہیں: “ہمارے پاس وائی فائی نہیں ہے۔ ایک دوسرے سے بات کریں۔ یوں ظاہر کریں یہ 1995 ہے۔”
پاکستان کے تجارتی دارالحکومت کراچی میں ایک قدیم گھر کے عقبی حصے میں واقع یہ ماضی کیفے ہے جو ڈیجیٹل دنیا سے الگ زیادہ وقت گذارنے، سکرین کا وقت کم کرنے اور حقیقی زندگی میں روابط قائم کرنے کے خواہشمند لوگوں کے لیے ایک پناہ گاہ کے طور پر قائم کیا گیا ہے۔ یہاں کوئی انٹرنیٹ نہیں ہے اور زائرین کو ایک کپ کافی یا چائے پر گفتگو کرنے یا کیفے کی لائبریری سے کتابیں پڑھنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
کیفے کی ترتیب بھی کافی پُرسکون ہے اور اس کے پرانی یادوں سے وابستہ حسن میں اضافہ کرتی ہے: ایک قدیم گھر کے عقب میں بلند و بالا درخت تلے نیم روشنی والا ماحول ہے۔ پانچ عشرے قدیم اس گھر میں ایک ڈاکٹر آصف جلیل اور ان کی اہلیہ اقصیٰ نے گذشتہ سال اکتوبر میں کیفے کھولا تھا۔
جلیل کہتے ہیں کہ کیفے ‘ماضی’ ایک کیفے سے زیادہ ہے جو ہر عمر کے لوگوں کے لیے ایک کمیونٹی مرکز میں تبدیل ہو گیا ہے جو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی ہنگامہ خیز زندگی سے مختصر وقت کے لیے رابطہ منقطع کر کے کچھ دیر پُرسکون انداز میں وقت گذارنا چاہتے ہوں۔
اقصیٰ نے عرب نیوز کو بتایا، “یہ خیال ہم دونوں کے ذہن کی اختراع ہے کیونکہ ہم دونوں ایک جوڑے کی حیثیت سے کافی پسند کرتے تھے۔ جب ہم اپنے اس گھر کے عقبی حصے میں بیٹھتے تھے تو ہم نے سوچا کیوں نہ ایک ایسی جگہ بنائی جائے جہاں ہم موبائل فون استعمال نہ کر سکیں اور اس کے بجائے ہم ایک دوسرے سے بات کریں۔ ہم ہمیشہ پرامن اور پرسکون ماحول میں بیٹھ کر صرف درختوں کو دیکھ اور پرندوں کی چہکار سن سکیں۔”
اقصیٰ نے کہا کہ یہ بات واقعی انہیں پریشان کرتی تھی کہ لوگ سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے لیے ہمیشہ اپنے کھانے کی تصاویر لیتے تھے جس نے انہیں ایک ایسی جگہ بنانے کی ترغیب دی جہاں لوگ اپنے فون کو ایک طرف رکھ کافی سے لطف اندوز ہوں اور بات چیت کر سکیں۔