ایک صدی بعد

امریکا میں ایک صدی بعد یہ فیصلہ سامنے آیا ہے کہ مستقبل میں وائٹ ہاؤس میں پریس گروپ کا حصہ بننے والے نیوز آؤٹ لیٹس کا تعین وائٹ ہاؤس کی پریس ٹیم کرے گی۔ اس سے قبل یہ کام White House Correspondents’ Association انجام دیتی تھی۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرولین لیوٹ نے منگل کے روز مزید بتایا کہ “طویل عرصے سے پریس گروپ میں شامل پرانے آؤٹ لیٹوں کو بھی شامل ہونے کی اجازت دی جائے تاہم ساتھ ہی ان حق دار آؤٹ لیٹوں کو بھی امتیازی حیثیت دی جائے گی جن کو اس شان دار ذمے داری میں شرکت کا کبھی موقع نہیں ملا”۔

یہ اقدام “ایسوسی ایٹڈ پریس” (اے پی) نیوز ایجنسی کی جانب سے کیرولین لیوٹ اور دیگر سینئر ذمے داران کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیے جانے کے جواب میں سامنے آیا ہے۔ ان افراد نے ایجنسی پر اس نوعیت کے علاقوں میں داخل ہونے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

واضح رہے کہ اے پی ایک روایتی ایجنسی ہے جو صدارتی طیارے میں امریکی صدر کے ہمراہ ہوتی ہے۔

یہ پابندی اے پی نیوز ایجنسی کی جانب سے خلیجِ میکسیکو کی جانب روایتی نام کے ساتھ حوالہ دینے کا سلسلہ جاری رکھنے پر عائد کی گئی۔ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر میں اس کا نام بدل کر خلیجِ امریکا کر دیا تھا۔

وائٹ ہاؤس نے پیر کے روز اعلان کیا تھا کہ اخباری اداروں کی صدر تک رسائی کوئی “آئینی حق” نہیں ہے۔

ادھر وائٹ ہاؤس کے صحافیوں کی انجمن نے صحافیوں کے کام میں لائی جانے والی بنیادی تبدیلیوں پر رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ انجمن کے مطابق یہ اقدام امریکا میں آزادی صحافت پر کاری ضرب ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت صرف ان صحافیوں کو چنے گی جو صدر کی خبریں نشر کریں گے۔ ایک آزاد ملک میں قیادت کو اپنی صحافتی انجمنیں منتخب کرنے کی قدرت نہیں ہونا چاہیے۔

وائٹ ہاؤس کارسپانڈنٹس ایسوسی ایشن کی بنیاد 1914 میں رکھی گئی تھی۔

اپنا تبصرہ لکھیں