مقبوضہ کشمیر کے تفریحی مقام گلمرگ میں رمضان المبارک کے دوران نیم برہنہ فیشن شو کا انعقاد، کشمیریوں میں غم و غصہ،، وزیراعلی عبداللہ عمر نے 24 گھنٹے میں رپورٹ طلب کرلی۔
رپورٹ کے مطابق 8 مارچ کو گلمرگ میں ہونے والے فیشن شو میں سکی وئیر کلیکشن دکھایا گیا جس کے ماڈلز کی نیم عریاں تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں جس کےبعد مقبوضہ کشمیر میں احتجاج کی لہر پھوٹ پڑی، سیاسی و و مذہبی رہنماؤں کے علاوہ عام شہریوں نے بھی ماہ مقدس کا احترام ملحوظ خاطر نہ رکھنے پر احتجاج کیا ہے جبکہ اس کی گونج ریاستی اسمبلی میں بھی سنائی دی ہے۔
جیسے ہی ایوان کا اجلاس ہوا، نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور دو آزاد ارکان نے کھڑے ہو کر فیشن شو کا مسئلہ اٹھایا، اسے “فحش” قرار دیا اور الزام لگایا کہ اس سے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔
ایم ایل اے نے رمضان کے دوران اس طرح کے شو کی اجازت دینے والے کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ جبکہ پی ڈی پی ایم ایل اے میر محمد فیاض اور این سی ایم ایل اے تنویر صادق نے بھی یہ مسئلہ اٹھایا۔
ایکس پر ایم ابوبکر پنڈت نامی شخص نے بھی اس تقریب پر تنقید کی۔ انہوں نے لکھا کہ شرمناک! رمضان کے مقدس مہینے میں گلمرگ میں نیم عریاں شو کی اجازت دی گئی۔ سی ای او جی ڈی اے کو جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے اور یا تو دی گئی اجازت کو درست قرار دیا جائے یا منتظمین کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے فوری کارروائی کی جائے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر ایک پوسٹ میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی رہنما محبوبہ مفتی نے کہا کہ گلمرگ میں حالیہ فیشن شو کی بے ہودہ تصاویر دیکھنا “بہت پریشان کن” ہے۔
“حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کا واقعہ جو ایک بے حیائی کے تماشے کی شکل اختیار کر گیا رمضان کے مقدس مہینے میں پیش آیا، افسوسناک ہے کہ نجی ہوٹل والوں کو ان تقریبات کے ذریعے اس طرح کی فحاشی کو فروغ دینے کی اجازت دی جاتی ہے، جو ہماری ثقافتی اقدار کے صریحاً متصادم ہیں،‘‘
۔ اس پر حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق نے سخت احتجاج کیا ہے۔میرواعظ عمر نے فیشن شو کو لے کر کہا کہ یہ انتہائی شرمناک ہے! رمضان کے مقدس مہینے میں گلمرگ میں ایک فحش فیشن شو کا انعقاد کیا گیا، جس کی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہو گئے ہیں جس سے لوگوں میں ناراضگی اور غصہ پایا جا رہا ہے۔ صوفی سنت ثقافت اور گہرے مذہبی نقطہ نظر کے لیے مشہور وادی میں اس کو کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے؟ اس میں شامل افراد کا فی الفور احتساب کیا جانا چاہئے۔ سیاحت کو فروغ دینے کے نام پر ایسی فحاشی کشمیر میں برداشت نہیں کی جائے گی!
جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی اس پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا: صدمہ اور غصہ پوری طرح سے سمجھ میں آتا ہے۔ میں نے جو تصاویر دیکھی ہیں ان میں مقامی حساسیت کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے اور وہ بھی اس مقدس مہینے کے دوران۔ میرا دفتر مقامی حکام سے رابطے میں ہے اور میں نے اگلے 24 گھنٹوں میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر مزید مناسب کارروائی کی جائے گی۔
: