اندر توں باہر تو روح روح وچ توں
تو ہی تاناں توں ہی باناں سبھی کچھ میرا توں
کہے حسین فقیر نمانا میں نہ ہی سبھ توں
باغبان پورہ میں شاہ حسین کی درگاہ پر آگ کا الاؤ روشن تھا۔ منڈیر پر چھوٹے چھوٹے چراغ اور موم بتیاں جل رہی تھیں۔ مرد و خواتین باری باری آتے، چراغ میں انگلی ڈبوتے اور تیل اپنے جسم پر مل لیتے۔ یہ منظر لاہور کے سالانہ میلہ چراغاں کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ سینکڑوں برس سے مارچ کے آخری ہفتے لگتا آ رہا یہ میلہ چراغاں یا میلہ شالامار، جسے لاہور کا سب سے بڑا تہوار سمجھا جاتا ہے، اس مرتبہ بھی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہنے کے بعد پیر کے روز اختتام پزیر ہو گیا۔
ہم میں سے کئی نسلیں سکول کے نصاب میں وہ نظم پڑھتے ہوئے جوان ہوئیں جس کی لائنیں تھیں: کھیتوں سے منہ موڑ کے، سب کاموں کو چھوڑ کے، دہقانوں کی ٹولیاں، گاتی آئیں بولیاں، میلہ شالامار کا۔
’’سوہنا شہر لاہور‘‘ کے نام سے شائع ہونے والی کتاب کے مصنف طاہر لاہوری اس کی تاریخ سادہ لفظوں میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ”یہ میلہ حضرت شاہ حسین کے عرس کا ہوتا تھا۔ اس لیے اسے میلہ مادھو لعل حسین بھی کہتے تھے، میلہ چراغاں اس لیے مشہور تھا کہ حضرت شاہ حسین کے مزار پر لوگ کثرت سے چراغ جلاتے تھے۔ اس سے اگلے دن عرس کی بقیہ تقریبات ہوتی تھیں۔ جب اس میلے کی شہرت دور دور تک پھیلی، تو اس میلے نے عرس کے ساتھ موسمی میلے کی صورت اختیار کر لی۔ موسم بہار کے آغاز پر اس میلے کے انعقاد نے بہاریہ میلے کا رنگ اختیار کر لیا کیونکہ اس میں ہر مذہب اور رنگ و نسل کے لوگ شریک ہوتے تھے۔ اسے میلہ شالا مار بھی کہا جانے لگا۔”خیال رہے شاہ حسین سولہویں صدی کے پنجابی شاعر تھے جن کی کافیاں خطے کے لوک کلچر کا حصہ بن چکی ہیں۔
وہی شاہ حسین جس نے کہا تھا،
رہا میرے حال دا محرم توں
اندر توں باہر تو روح روح وچ توں
تو ہی تاناں توں ہی باناں سبھی کچھ میرا توں
کہے حسین فقیر نمانا میں نہ ہی سبھ توں
مشتاق صوفی کے مطابق، ”ہماری ثقافتی روایات کی شاہ حسین سے بہتر مجسم شکل کوئی دوسری نہیں۔”
چراغ، ڈھول، دھمال اور گلاب: میلہ چراغاں کیسے منایا گیا؟
رمضان کی وجہ سے رواں برس میلہ چراغاں مارچ کے آخری ہفتے کے بجائے اپریل میں منعقد ہوا۔ ایک دوسرا نمایاں پہلو میلے کا دوبارہ سے شالامار میں منعقد ہونا تھا۔
روایتی طور پر میلہ چراغاں شالامار باغ میں ہی لگتا آیا مگر ایوب خان نے 1958ء میں اس پر پابندی عائد کر دی تھی۔ رواں برس پنجاب حکومت نے شالامار کے دروازے کھول کر 67 برس قدیم روایت سے جوڑنے کی کوشش کی۔
بارہ اپریل سنیچر کے روز باغبانپورہ میں مادھو لال حسین کے دربار پر خواتین، مرد اور بچوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ دربار کے بالکل سامنے مچ یا آگ کا الاؤ روشن تھا جس میں عقیدت مند موم بتیاں ڈال رہے تھے۔ بہت سے لوگ تیل والی اپنی بوتل کسی چراغ میں انڈیل کر وہاں سے چند قطرے واپس اپنی بوتلوں میں رکھ لیتے۔ انہیں میں سے ایک جھنگ کی بھاگ بھری تھیں۔
ان کا کہنا تھا، ”میں تقریباً چالیس پینتالیس برس سے آ رہی ہوں۔ یہ تیل برکت والا ہے، میں نے اپنا لایا تیل انڈیل کر یہاں سے چند قطرے واپس ڈال لیے، جو گھر لے جاؤں گی۔ ہم سارا سال اسے استعمال کرتے ہیں۔ زخم یا پھوڑے پھنسیاں نکل آئیں تو یہ تیل لگانے سے فوراً شفا ملتی ہے۔”
چراغ رکھنے والا سٹینڈ ہو یا مادھو لال اور شاہ حسین کے مزاروں کی تختیوں پر لکھے ان کے نام، فقیروں کے لباس سے درختوں پر لگی کاغذ کی جھنڈیوں تک ہر طرف دو رنگ بہت نمایاں تھے، سرخ اور پیلا۔ مچ کے ساتھ ہی ابوذر مادھو دھمال ڈال رہے ہیں جو لاہور میں استاد اور راوی بچاؤ تحریک کی نمایاں آواز ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ”سرخ رنگ شاہ حسین کا ہے جب کہ پیلا رنگ مادھو لال کا ہے۔ سرخ رنگ محبت کی آگ ہے، پیلا رنگ محبوب کی سپردگی ہے۔ شاہ حسین کی تائید میں فقیر سرخ رنگ پہن کر دھمال ڈالتے ہیں۔”
دربار کے اندرونی احاطے میں، جہاں شاہ حسین اور مادھو لال دفن ہیں وہاں گلاب کی پتیاں بکھری پڑی تھیں۔ عقیدت مند دعائیں مانگتے اور پھول رکھتے جا رہے تھے۔ دربار کے ساتھ ہی قبرستان ہے، جس میں جگہ جگہ فقیر منڈلیاں لگائے بیٹھے تھے۔ کہیں دھمال اور ڈھول کی تھاپ تو کہیں بھنگ کے پیالے بھر بھر پیے جا رہے ہیں۔ سامنے لنگر خانے میں ایک کے بعد ایک دیگ کھلتی چلی جا رہی تھی۔
ادھر شالامار باغ میں بھی بھر پور رش تھا، جہاں فوڈ سٹال، آرٹ ولیج، رقص و موسیقی اور کیا کچھ نہ تھا مگر سب سے زیادہ رش پانی کے فواروں اور ان میں جلتے ہوئے فانوسوں کے اردگرد تھا۔