تحریک انصاف کی حکومت گورننس کیوں نہیں کر پارہی؟ کیا گندم درآمدی اشیا میں شامل ہے؟ گندم کی قیمت اچانک کیوں بڑھ گئی ہے؟ آج یہ سوال ہر چوپال اور ہر سیاسی‘ سماجی محفل میں پوچھا جارہا ہے یہ سوال کا جواب ملنے تک ملک میں آٹے کے بعد چینی کا بحران بھی کھڑا ہو چکا ہوگا‘ گیس اور بجلی کے نرخ بڑھانے کی تیاریاں بھی کی جارہی ہیں‘ گویا ایک سے بڑھ کر ایک بحران سامنے ہے یہ کسی صورت ٹلنے والا نہیں ہے آٹے کے بحران پر قابو پانے کیلئے وفاقی حکومت نے تین لاکھ ٹن گندم درآمد کرنیکی منظوری دی ہے بحران پیدا ہوجانے کے بعد گندم ہنگامی بنیادوں پر منگوانے کا فیصلہ کیا گیا ہے حکومت نے 29 روپے فی کلو کے حساب سے گندم برآمد کی، وہ ملک میں 70 روپے کلو کے حساب سے ملے گی یوں عوام کو ایک بار پھر نچوڑا جائے گا اگلے ماہ گندم آجائے گی اگر ایسا ہی کرنا تھا تو یہ گندم باہر کیوں بیچی گئی؟ ایک جانب وفاق کا موقف ہے کہ اس کے پاس 40 لاکھ ٹن گندم کا ذخیرہ موجود ہے تو درآمد کرنے کا جواز نہیں بنتا، وفاقی حکومت کا کاباہر سے گندم منگوانے کا فیصلہ سمجھ سے بالاترہے اگر یہ فیصلہ درست ہے تو کیا وفاقی حکومت نے جو کہا وہ غلط تھا، وفاقی حکومت بتائے کہ انکا کون سا فیصلہ صحیح تھا اور کون سا غلط‘ اگرتین لاکھ ٹن گندم باہر سے منگوانی تھی تو 40 ہزار ٹن گندم افغانستان کیوں بھیجیگندم سستے داموں باہر بھیج کر کس کا نقصان ہوا اور کسے فائدہ پہنچایا گیا؟ گندم کا یہ بحران نہیں‘ عمرانی سلطنت کی نااہلی کی داستان امیر حمزہ ہے 2018کے آخر میں اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) سے گندم برآمد کرنے کی اجازت حاصل کی گئی اور گندم بیرونِ ملک فروخت کرکے پیسے کمائے گئے۔ گزشتہ برس حکومت پاکستان سے یہ فیصلہ کروایا گیا کہ اضافی گندم خیر سگالی کے طور پر افغانستان کو بطور تحفہ دیدی جائے جب گندم خریدنے کا موقع آیا تو پاسکو اور صوبائی محکموں سے گٹھ جوڑ کرکے گندم کی خریداری کا ہدف مقرر نہیں ہونے دیا گیاجب کسان مجبور ہوا تو ان مافیاز نے سستے داموں گندم خرید کر اسٹاک کرلی۔ گندم کی فراہمی روک دی گئی اور اب جب مصنوعی بحران کے نتیجے میں آٹے کی قیمت 40روپے فی کلو سے 70روپے فی کلو ہو چکی ہے تو نہ صرف سستا اناج مہنگے داموں فروخت کرکے پیسے کھرے کئے جا رہے ہیں بلکہ ایک بار پھر اقتصادی رابطہ کمیٹی سے ٹیکس فری گندم درآمد کرنے کی اجازت لے لی گئی ہے حکومت کا ہر عہدیدار یہ بات تسلیم کر رہا ہے کہ آٹے کے معاملے میں حکومت سے کوتاہیاں ہو ئی ہیں لیکن نیب اور حکومتی تفتیشی ادارے سب خاموش ہیں حکومت کے علم میں تھا کہ گندم کی قلت کا بحران پیدا ہونے والا ہے مگر چور چور کے نعرے کے لحاف سے اپنا منہ باہر نکالنے کو تیار ہی نہیں اس بحران کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے حکومت کی مشینری حرکت میں آنے کی بجائے باالکل جامد ہے ابھی حال ہی میں اقتصادی رابطہ کمیٹی تین لاکھ گندم درآمد کرنے کی منظوری دی ہے اس گندم کی پہلی کھیپ 15 فروری کو ملک پہنچے گی اور 31 مارچ تک 3 لاکھ ٹن گندم کی برآمد کرلی جائے گی حکومت اب بجلی اور گیس کے نرخ ایک بار پھر بڑھا رہی ہے پیٹرولیم ڈویژن نے یکم فروری سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کیلئے سمری اقتصادی رابطہ کمیٹی کو بھیج دی ہے جس میں گھریلو صارفین کیلئے گیس کی قیمتوں میں 5فیصد اضافے اور گھریلو صارفین کیلئے گیس میٹر کرائے میں ماہانہ 60 روپے اضافے کی تجویز بھی دی گئی ہے اسی طرح نیا گیس میٹر کرایہ 80 روپے ماہانہ مقررکرنے کی تجویز ہے‘ بجلی کارخانوں کیلئے گیس کی قیمت 12 فیصد اور برآمدی صنعتوں کیلئے گیس کی قیمت 6.5 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کرنے کی تجویز دی گئی ہے اس طرح کھاد کارخانوں کیلئے گیس کی قیمت ایل این جی کی قیمت کے برابر کردی جائے گی‘ حکومت یہی تک نہیں رکی‘ چند ماہ میں سی این جی کیلئے گیس قیمت میں 15 فیصد اضافہ کرنا چاہتی ہے آٹے کے بحران کے باعث نان بائی روٹی کی قیمت دس سے بڑھاکر 15 روپے کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن وہ قیمت نہ بڑھنے سے خاموشی سے روٹی کا وزن کم کر چکے ہیں بات یہیں نہیں رک جائے گی بلکہ امکان ہے کہ آئندہ چند ماہ کے دوران آٹے کی قیمتوں میں نہ صرف مزید اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ گندم اور آٹے کا بحران بھی پیدا ہو سکتا ہییہ بحران تب تک چلے گا جب تک نئی فصل تیار نہیں ہوتی اور نئے پاکستان کی تعمیر پر سرمایہ کاری کرنے والے اپنی رقوم بھاری سود کے ساتھ وصول نہیں کر لیتے یہ ہر کسی معلوم ہے کہ ہر سال تقریباً 1.5ملین ٹن گندم وفاقی ادارہ پاسکوخریدتا ہے جبکہ 3سے 4ملین ٹن گندم پنجاب کا محکمہ خوراک خریدتا ہے تاکہ مصنوعی ذخیرہ اندوزی یا اسمگلنگ کے ذریعے ملک میں غذائی بحران کی کیفیت پیدا نہ ہونے پائے۔ گزشتہ برس پنجاب حکومت نے 40لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدنے کا ہدف مقرر کیا جسے 90فیصد حاصل کر لیا گیاتھااس سال تبدیلی سرکار نے گندم خریداری پالیسی کا اعلان کیا تو خریداری کا ہدف مقرر نہیں کیا گیا محکمہ خوراک کے ترجمان بتاتے ہیں کہ اس سال 33لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدی گئی ہے جبکہ دیگر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ گندم خریداری اس سے کہیں کم ہے لیکن اصل خبر یہ ہے کہ عالمی بینک سے قرض لینے کے لئے حکمت عملی بنائی گئی ہے کہ اسے فیصلے اور ارادے کا کا نام بھی دیا جاسکتا ہے کہ 2021تک سرکاری سطح پر گندم کی خریداری کا سلسلہ ترک کردیا جائے گا۔ گندم کی سرکاری سطح پر کم خریداری کے پیش نظر ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ آئندہ چھ ماہ کے دوران نہ صرف غذائی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے بلکہ آٹے کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے اگر واقعی یہی حقائق ہیں تو ملک کی پارلیمنٹ میں یہ سوال ضرو اٹھایاجانا چاہیے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید پر شاعرانہ انداز میں تنقید کی ہے سینیٹ اجلاس سے خطاب میں سینیٹر سراج الحق نے شیخ رشید پر تنقید کے لیے شاعر ساحر لدھیانوی کے شہرہ آفاق شعر ’ایک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر، ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق‘ میں ترمیم کی
ایک وزیر نے وزارت کا سہارا لے کر
عوام کی غربت کا اڑایا ہے مذاق
انہوں نے سینیٹ میں کہا کہ ایک وزیر کہتے ہیں نومبر دسمبر میں لوگ روٹی زیادہ کھاتے ہیں، کیا نومبر، دسمبر پہلی بار آیا ہے؟ یہ دونوں ماہ تو ہرسال آتے ہیں، پہلے تو کبھی آٹے کا بحران نہیں ہوا دیر بالا میں آٹے کی قطار میں کھڑا ایک بوڑھا شخص آٹا تو گھر نہ لے جاسکا لیکن دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگیا لنگر خانے مسائل کا حل نہیں، چاہتے ہیں کہ حکومت کارخانے لگائے سینیٹ میں اٹے کے بحران پر قائد حزب اختلاف سینیٹ راجا ظفر الحق نے تحریک التوا پیش کیمسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر راجا ظفر الحق نے کہا ہے کہ ہر شخص آٹے کے بحران سے متاثر ہورہا ہے۔سینیٹ اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے راجا ظفر الحق نے کہاکہ خدا جانے کن وجوہات پر ایک صاحب کو گندم ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی گئی اب اسی شخص کو دوبارہ گندم امپورٹ کرنے کی اجازت دی گئی ہے،جاننا چاہتے ہیں کہ ایک شخص اور طبقے کو منافع دینے کیلئے ایسا کیوں کیا گیا؟جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہاکہ اب کھانا لنگر میں، رہائش پناہ گاہ میں، سکون قبر میں ملے گا۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ وزیراعظم آٹے کے بحران کے دوران کہیں یہ نہ کہہ دیں کہ آٹا اب ساشے پیک میں بھی ملے گا سینیٹر پرویز رشید نے وزیراعظم عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ آٹے اور چینی کے بحران سے اس نے منافع کمایا جس کے جہاز میں آپ سفر کرتے ہیں، جو ان کے گھر کا کچن چلاتا ہے پرویز رشید نے اپنے خطاب میں استفسار کیا کہ آٹے کا بحران واحد نہیں،چینی کی قیمت کیوں بڑھی؟انہوں نے کہا کہ آٹا، چینی کی قیمت بڑھ گئی، ملک میں گیس میسر نہیں جبکہ بجلی کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے، ڈالر کا ریٹ بھی راتوں رات بڑھ گیا، یہ سب کس کی جیب میں گیا؟ دیکھنا ہے کہ سینیٹ میں اس معاملے پر بحث کا حکومت کتنا اثر لیتی ہے؟ ملک میں کئی بار اس نوعیت کے بحران آئے مگر آخری بار یہ کیفیت جنرل پرویز مشرف کے دور میں سامنے آئی جب پہلے گندم اور پھر چینی کا بحران پیدا ہوا گندم کے بعد چینی کا بحران بھی انگڑائی لے رہا ہے چینی جو گزشتہ برس کے آغاز میں 54روپے کلو تھی،اس کے نرخ 85روپے کلو تک لے جا کر پہلے ہی شوگر مافیا اپنے پیسے پورے کر چکا ہے مگر موقع غنیمت جان کر ایک بار پھر کمائی کرنے کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے یہ بات بھی یہاں قابل ذکر ہے کہ کرشنگ سیزن جاری ہونیکے باوجود 100کلو چینی کی بوری 500روپے مہنگی کردی گئی ہے، جسکے نتیجے میں ایک بوری کی قیمت 6ہزار 8سو60سے بڑھاکر 7ہزار3سو40روپے کردی گئی۔ فی کلو چینی ہول سیل میں 75روپے جبکہ پرچون میں 80روپے کلو تک فروخت ہونے لگی عالمی مارکیٹ میں چینی کے ریٹ 50روپے فی کلو سے بھی کم ہیں اور اس ریٹ پر عالمی منڈیوں سے خریدی گئی چینی پاکستانی مارکیٹ میں 100کلو بوری 5ہزار800روپے کی پڑیگی۔چینی کی قیمت میں اچانک اضافے پر انتظامیہ خاموش اور ذخیرہ اندوز متحرک ہیں اور انہوں نے چینی کو اسٹاک کرنے کیلئے اربوں روپے لگا دیئے پنجاب میں 10 ملین میٹرک ٹن کرشنگ ہو چکی ہے اور 10 لاکھ 51 ہزار ٹن چینی کے ذخائر موجود ہیں۔ مصنوعی گھن چکر کو نہ روکا گیا تو قیمت مزید بڑھنے کا خدشہ ہے کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں گندم اور چینی کا بحران آیا تو اس وقت بھی وہی لوگ حکومت میں تھے جو آج کابینہ میں ہیں آج لوگ آٹے کے حصول میں مارے مارے پھر رہے ہیں اور آٹا 70روپے فی کلو تک تجاوز کر گیا ہے۔ وزارتِ نیشنل فوڈ سیکورٹی نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ یہ حالات گندم کی اسمگلنگ کے باعث پیدا ہوئے ہیں صرف چمن بارڈر سے ماہانہ چالیس ہزار ٹن گندم اسمگل ہونے کا مطلب نہ صرف فوڈ سیکورٹی بلکہ قومی معیشت کو بھی اربوں روپے کا نقصان پہنچانا ہے۔ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی جنہیں بدعنوان سرکاری اہلکاروں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے سوشل میڈیا بھی کسی سے پیچھے نہں رہا جہاں ابہام پیدا کیا جارہا ہے اور روزانہ آٹے کی قیمتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے
