سیاسی استحکام کی ضرورت

محمد اعجاز الحق
صدر پاکستان مسلم لیگ(ضیاء الحق شہید)
رکن قومی اسمبلی
آج پاکستان کا 78واں یوم آزادی ہے،1947ء میں 14 اگست کواِسی دن خدا کی رحمت، بزرگوں کی بشارت، کئی نسلوں کی قربانی اور تحریک ِ پاکستان کی بدولت یہ ملک معرضِ وجود میں آیا تھا۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے جو خواب دیکھا تھا اُس کو تعبیر ملی،اس کی مشعل تحریک پاکستان کے سرکردہ رہنماؤں نے تھامی جس کے سالار قائداعظم محمد علی جناحؒ تھے۔انہوں نے سونے والوں کو بیدار کیا، غلامی سے نکل کر آزادی کی راہ پر چلنے کی ترغیب دی، ان میں قومیت جگائی اور بالآخر برصغیر کے مسلمان اپنی ایک الگ ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام دیا گیا۔ پاکستان تو بن گیا لیکن قائم ہوتے ہی سازشوں، مصیبتوں اور مشکلات میں گِھر گیا، ابتداء میں اِسے ریاستوں کے الحاق، ریڈ کلف ایوارڈ اور پنجاب باؤنڈری کمیشن جیسے سخت مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ اِس نوزائیدہ ریاست کے ساتھ کئی ناانصافیاں روا رکھی گئیں، گورداس پور سمیت‘بہت سے مسلم اکثریتی علاقے ہندوستان میں شامل کر دیے گئے، بعض الحاق شدہ ریاستوں کو پاکستان کا حصہ نہ بنایا گیا۔ ابتداء میں ہی ہمیں ریاست کو مہاجرین کی آباد کاری، کرنسی کا بحران، نہری پانی تنازعہ، انتظامی اور اقتصادی مسائل سمیت بہت سی مشکلات درپیش تھیں۔ تقسیم ِ ہند کے دوران روا غیر منصفانہ اقدام کا بنیادی مقصد پاکستان کے وجود پر کاری ضرب لگا کر اسے کمزور کرنا تھا تاکہ بعدازاں اِسے دوبارہ ہندوستان میں شامل کر لیا جائے۔ قائداعظم محمد علی جناح کو خود مختار مملکت کے ساتھ ابتدائی ایام میں روا رکھی گئی ناانصافیوں کا گہرا ادراک تھا۔ اُنہوں نے نہ صرف اسے آبرومند قوم کے جری رہنماء کے طور پر قبول کیا بلکہ پاکستان کے عوام میں اُمید کے چراغ بھی روشن کیے اور یہ یقین دلایا کہ انشاء اللہ پاکستان ہمیشہ قائم و دائم رہے گا۔ یہ وہ وقت تھا جب جذبے توانا تھے،خلوصِ نیت تھی، ملک و ملت کی تعمیر کے لئے سب پُرجوش تھے اور انتھک محنت کے سر پر ہی پاکستان نے اِن گھمبیر مسائل کو نہ صرف زیر کیا بلکہ اِن تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان توانا ہوتا چلا گیا اور اعتماد کے ساتھ اپنی جدوجہد کا سفر جاری رکھتے ہوئے آگے بڑھتا رہا۔ یاد رکھنے کی بات یے پاکستان وجود میں آیا تو ملکی انتظامی ڈھانچہ مفقود تھا،افواجِ پاکستان سمیت کئی ادارے نئے سرے سے تعمیر ہوئے لیکن پھر سیاسی افراتفری دیکھنے میں آئی،پاکستان میں آئین سازی کا کام التواء کا شکار ہو گیا، تاہم اِنہی نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے پاکستان کو اِس کا پہلا 1956ء کا آئین نصیب ہوا لیکن بدقسمتی سے یہ ون یونٹ کے سیلاب میں بہہ گیا ایوب خان کے بعد یحییٰ خان کا عہد شروع ہوا اور عام انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کیے جانے پر 1971ء میں ملک دو لخت ہو گیا۔ پاکستان کو ایک متفقہ آئین1973ء میں ملا جو آج بھی ملک میں نافذ ہے‘ 1998ء میں پاکستان ایٹمی قوت بن گیا‘ اگرچہ کولڈ ٹسٹ صدر جنرل محد ضیاء الحق کے دور میں ہی ہوچکے تھے‘1999 میں نواز شریف حکومت ختم ہوئی اور جنرل مشرف آگئے‘2002ء میں انتخابات ہوئے‘ اس کے بعد سے اب تک تمام تر کمزوریوں کے باوجودملک میں جمہوری سفر جاری ہے‘ پاکستانی صحیح معنوں میں ایک زندہ قوم ہیں،اس کی زیادہ تر آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جن میں بے شمار صلاحتیں ہیں،اُن کے حوصلے جوان اور حرارت سے بھرے ہوئے ہیں لیکن معاشی کمزوریوں‘ سیاسی عدم استحکام ترقی کی راہ میں حائل ہے۔ پاکستان نے نہائت قلیل وسائل سے ابتداء کی تھی لیکن اب ہمارے دانشوروں، سائنس دانوں اور صنعت کاروں کی پوری دنیا میں پہچان ہے، تمام تر شکست و ریخت اور مشکلات کے باوجو ملکی نظام چل رہا ہے۔ معاشی عدم استحکام اور سیاسی تقسیم کے باوجود دہشت گردی کے خلاف پوری قوم متحد ہے‘ چند سال قبل معاشی ڈیفالٹ کی آوازیں اب دم توڑ چکی ہیں،ملک کی معیشت درست سمت میں گامزن ہے۔اگرچہ ابھی اِس کا فائدہ عام آدمی کو پہنچنا شروع نہیں ہوا، مہنگائی کا جن ابھی بھی بے قابو ہے لیکن حکومت کا دعوی ہے کہ کہ جلد ہی عوام تک بھی ثمرات پہنچ جائیں گے بہر حال معاشی استحکام سیاسی استحکام کے لیے بہت ضروری ہے‘ معاشی اور سیاسی استحکام کڑے احتساب کے بغیر ممکن نہیں‘ ملک کو نقصان پہنچانے والا گروہ کتنا طاقتور ہی کیوں نہ ہو احتساب کی چھلنی سے اب نہیں بچنا چاہیے‘ کڑے، بلا تفریق اور بے رحم احتساب ہی کے ذریعے قانون کی حاکمیت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے، اِسی کا خواب بانی پاکستان نے دیکھا تھا اور اِسے یقینی بنانے کی وصیت بھی کی تھی جس معاشرے میں انصاف ہو اُسے ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔لازم ہے کہ جس نے بھی ملک کو نقصان پہنچایا ہر کسی کا احتساب کیا جائے، ملک کو نقصان پہنچانے والے کسی بھی شخص کے ساتھ نرمی نہیں برتی جا سکتی۔آج کے دن یہ عہد کریں کہ قانون کی حاکمیت پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہو گا‘مل کر عہد کریں کہ پاکستان کو ہر برائی سے پاک کریں گے۔ اس کے نام کی لاج رکھیں گے
، یہ پاک سرزمین ہے اور اس کے قیام کے وقت ہر شخص کا نعرہ تھا ”پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ!“ پاکستان کا تصور علامہ اقبال نے پیش فرمایا۔ اس خواب کی تعبیر قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ولولہ انگیز اور کرشمہ ساز قیادت میں ممکن ہوئی۔ پاکستان کی اساس دو قومی نظریہ ہے‘ ملک کی سب سے اہم ضرورت دیانت دار سیاسی قیادت ہے‘ دیانت دار سیاسی قیادت ہی ملک سنبھال سکتی ہے اور اسے ترقی دلا سکتی ہے‘ مگر ایک لابی ہے جو اس ملک میں بہترین‘ محب وطن اور دیانت دار سیاسی قیادت لانے کی کوششوں کی راہ میں مزاحم ہے‘ اس لیے تو بالخصوص دستور کی دو اہم دفعات 62 اور 63 مفاد پرست اشرافیہ اور ان کے حواریوں کو بری لگتی ہیں اور وہ امانت ودیانت اور سچائی وصداقت کے اصولوں پر مشتمل دفعات کو دستور سے خارج کرنے کے متمنی ہیں۔ ان دفعات کا دستور سے اخراج ایک عظیم قومی المیے سے کم نہیں ہوگا۔ پوری قوم کے تمام باشعور طبقوں کی ذمہ داری ہے کہ ان سازشوں کو ناکام بنائیں۔ ان دفعات پر عمل نہیں ہو رہا۔ یہ قومی المیہ ہے۔ اگر ان پر عمل درآمد ہو جائے تو ملک سے کرپشن اور لوٹ مار کا خاتمہ ممکن ہو جائے۔ہمارا ازلی دشمن بھارت ہمارے خلاف پوری طرح اپنی خباثت اور جارحیت کا ارتکاب کررہا ہے۔ ہم نے اسے معرکہ حق کے دوران منہ توڑ جواب دیا ہے لیکن وہ ابھی باز نہیں آرہا‘ اگر اس نے دوبارہ جارحیت کی اسے سخت جواب ملے گا‘ دستور پاکستان قرآن وسنت کو بالادست قانون قرار دیتا ہے۔ اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کا اقرار کرتا ہے۔ قومی زبان اردو کو قرار دیتاہے اور اس کی تنفیذ کا لائحہء عمل دیتا ہے۔ سود کو ختم کرنے کا باقاعدہ ایک فریم ورک اس میں موجود ہے۔ وہ مدت جس کے اندر اندر سود ختم کرنا تھا وہ بھی گزر چکی ہے، مگر آج تک ہم سود کی لعنت سے چھٹکارا نہ پاسکے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس متفقہ آئین کے خلاف سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک متفقہ موقف پر اکٹھے ہوجانا وقت کی ضرورت…… ہے۔ اگر یہ قومی سوچ پروان چڑھ جائے تو یومِ پاکستان منانے کا لطف بھی دوبالا ہوجائے۔ اسی کے نتیجے میں اندرونی وبیرونی تمام فتنوں کا سدباب ہوسکتا ہے اور پاکستان ایک ناقابل شکست ملک کے طو رپر دنیا میں سرخرو وسربلند ہوسکتا ہے۔ ایٹمی صلاحیت حاصل کرنا بہت بڑا اور تاریخی کارنامہ ہے قومیں اپنے اساسی نظریات کی حفاظت کرکے عزت و احترام پاتی ہیں۔ ”ہم ایک زندہ قوم ہیں“ کا ترانہ بڑا ایمان افروز ہے، مگر ہمیں زندہ قوم بننے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ روایتی انداز میں یوم پاکستان منانے کی بجائے آئیے عہد کریں کہ جس طرح ہم معرکہ حق میں ایک زندہ قوم بن کر ابھریں ہیں اسی طرح ہر شعبہ زندگی میں بھی بنیان المرصوص بن کر ملک کی ترقی کے لیے کردار ادا کریں‘ اس کے لیے ہر قیمت پر ملک کا دفاع کرنے کا عزم اور قرآن وسنت اور دستور پاکستان ہی ہمارے درمیان نقطہء اتحاد بن سکتا ہے ملکی سلامتی و استحکام کے تقاضوں کے تحت ہمیں آج مکار دشمن بھارت کی ان سازشوں کو بھی پیش نظر رکھنا ہے جن کا آغاز اس نیچھ سال قبل 5 اگست 2019ء کو اپنے ناجائز زیر تسلط کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے اور اسے بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنا کر کیا تھا۔کل 15 اگست کو کشمیری اور پاکستانی عوام بھارتی یومِ آزادی کو یومِ سیاہ کے طور پر منائیں گے جس کے دوران اقوام عالم میں بھارتی جبر و تسلط کو اجاگر کیا جائے گا اور مسئلہ کشمیر کے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کے لیے زور دیا جائے گا۔ یہ حقیقت تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہوچکی ہے کہ متعصب ہندو اکثریت نے مسلم دشمنی کے باعث برصغیر کے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کر کے اور انھیں اپنے سے کمتر انسان کا درجہ دے کر دو قومی نظریے کی خود بنیاد رکھی تھی جو تحریک پاکستان کی بھی بنیاد بنی اور بالآخر قیام پاکستان پر منتج ہوئی، جس میں قائداعظم کی بے بدل قیادت میں ایک ایسے جدید اسلامی فلاحی جمہوری معاشرے کی تشکیل اور اس آزاد و خود مختار پاکستان کا تصور متعین ہوا، جس میں مسلمانوں کو نہ صرف مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو گی بلکہ انھیں اقتصادی غلامی کے شکنجے میں جکڑنے والی ہندو بنیا ذہنیت اور انگریز کے ٹوڈی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے استحصال سے بھی نجات ملے گی اور اس خطے کے مغلوب مسلمانوں کی جمہوری جدوجہد کے نتیجہ میں قائم ہونے والی اس مملکت خداداد میں خلقِ خدا کے راج کا تصور بھی عملی قالب میں ڈھل جائے گا۔ قیامِ پاکستان کے مقاصد، اس کے نظریے اور نظام کے حوالے سے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ذہن میں کوئی ابہام نہیں تھا
چنانچہ وہ قیام پاکستان کی جدوجہد کے دوران ہر مرحلے پر مسلمانانِ برصغیر اور دنیا کو قیام پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کرتے رہے۔ آج جو دانشور حلقے نظریہ پاکستان اور قیام پاکستان کے مقاصد کے حوالے سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حقائق کو مسخ کر کے پیش کررہے ہیں انھیں اسلامیہ کالج پشاور میں قائداعظم محمد علی جناح کی 13 جنوری 1948ء کی تقریر کے یہ الفاظ ذہن نشین کر لینے چاہئیں کہ ”ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔‘ یہ ہمارے قائد کا فرمان ہے‘ ہمیں یہ بھی سوچنا ہے کہ پاکستان کو طویل عرصہ دہشت گردی کے ناسور کا سامنا کیوں ہے جسے پاک فوج نے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دہشت گردوں کو بھارتی ”را“ کی مکمل سرپرستی حاصل ہے بھارت کی سازشوں کو ٹھوس حکمت عملی اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹ کر ناکام بنانے کی ضرورت ہے اس نے شہ رگِ پاکستان یعنی کشمیر کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے کے لیے بھارتی فوجوں اور پیرا ملٹری فورسز نے مقبوضہ وادی کو گزشتہ پانچ سال سے محصور کر کے جس وحشیانہ انداز میں کشمیریوں کا عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے، بالخصوص کشمیری نوجوانوں کو شہید اور مستقل اپاہج کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے،چادر اور چار دیواری کا تحفظ بری طرح پامال کیا جا رہا ہے۔ اس کے پیش نظر آج یومِ آزادی کے موقع پر قوم اور حکومت کی جانب سے کشمیری عوام کو ان کی جدوجہد کے ساتھ یکجہتی کا پیغام دینا، ملک کی سلامتی و خود مختاری کے تحفظ کے لیے بھی پوری قوم کا یکسو ہونا اور اس کے ساتھ ساتھ قیامِ پاکستان کے مقاصد سے بالخصوص نئی نسل کو آگاہ رکھنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ اس کے لیے پاکستان میں سیاسی اور اقتصادی استحکام کی بھی ضرورت ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارتی شرارتوں سے نمٹنے کے لیے ہمیں اس وقت قائداعظم محمد علی جناح کے وژن پر عمل کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ کشمیر کے بغیر پاکستان کا وجود مکمل نہیں ہو سکتا، لہٰذا کشمیر میں استصواب کے لیے عالمی ادارے اقوام متحدہ کی قرارداوں پر عمل درآمد ہونا چاہیے آج ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ہماری کشمیر پالیسی میں کسی قسم کا ابہام پیدا نہ ہونے دیا جائے۔ کشمیریوں کی جدوجہد درحقیقت تکمیل و استحکام پاکستان کی جدوجہد ہے جو ہمارے کسی فیصلے یا اقدام کے نتیجہ میں ضائع نہیں ہونی چاہیے۔ آج وطن عزیز کے یومِ آزادی کے موقع پر ملک میں سیاسی استحکام کی ضرورت ہے جو قومی قائدین کی باہمی چپقلش میں غارت ہوتا نظر آرہا ہے۔ ملک و قوم کو درپیش چیلنجز سے وسیع تر قومی اتحاد کی ضرورت ہے