محمد اعجاز الحق
صدر پاکستان مسلم لیگ(ضیاء الحق شہید)
رکن قومی اسمبلی
17 اگست ہر سال آتا ہے اور گزر جاتا ہے‘ مگر17 اگست1988 کا دن ایک غیرمعمولی تاریخ ہے‘ یہ ہمارے لیے دیوار پر لٹکے ہوئے کیلنڈر کی تاریخ بدلنے کا دن نہیں ہے‘ یہ ملک میں محب وطن شہریوں‘ اسلامی نظام کے عملی نفاذ کے حامیوں اور اس ملک کو اقوام عالم کا سردار ملک بنانے والے معمار صدر جنرل محمد ضیاء الحق شہید کا دن ہے‘ جنہوں نے افغان جہاد کی کامیابی کے بعد کشمیر کی آذادی کا عزم باند لیا تھا‘ لیکن پاکستان کو دنیا کا سردار ملک بننے سے روکنے والی قوتوں نے ایک منظم اور گہری سازش اور اپنے سہولت کاروں کے ذریعے پاکستان کی آگے بڑھنے کی تحریک اور ہم سے صدر جنرل محمد ضیاء الحق بھی چھین لیے‘ آج بھی اگر گہری منصوبہ بندی اور سازش کا گندہ قالین اٹھایا جائے نیچے سے بہت سے مکروہ چہرے مل جائیں گے‘ آج صدر جنرل محمد ضیاء الحق جسمانی طور پر ہم میں موجود نہیں تاہم وطن عزیز کو خانہ جنگی سے بچانے‘ اسلامی نظام زندگی کے عملی نفاذ کی کوشش کرنے والے‘ افغانستان میں جارحیت کے بعد پاکستان کے گرم پانیوں تک پہنچنے والے روس کو دریائے آمو کے پار دھکیلنے والے‘ راجیو کے ماتھے کو خوف کے پسینے میں ڈبو دینے والے صدر جنرل محمد ضیاء الحق شہید کا نام زندہ جاوید ہے‘ ان کا نام اور پاکستان کو ایک عظیم ملک بنانے کے لیے ان کا پیدا کردہ جنوں زندہ ہے‘ افغانستان سے روس کی واپسی ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے اس کھیل میں انہوں مہرے ایسی ترتیب سے لگائے کہ میخائیل گورپاچوف بھی ثیخنے پر مجبور ہوگئے‘ صدر ضیاء الحق جنیوا معاہدے کے خلاف تھے کیونکہ یہ معاہدہ پاکستان سے افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی اور کابل پر روس کی حکمرانی قائم رکھنے والا معاہدہ تھا‘ صدر جنرل محمدضیاء الہق چاہتے تھے کہ روس کی واپسی سے پہلے افغانستان میں نئی افغان حکومت قائم ہوجائے‘ وہ چونکہ ایسا مطالبہ کرنے والے تنہاء آواز تھے اس لیے وہ پاکستان دشمن قوتوں کے مقامی سہولت کاروں کے باعث طیارے کے حادثے کا شکار ہوگئے‘ ان کے طیارے کے حادثے پر بھارت سمیت پاکستان کے ہر دشمن ملک میں جشن کا سماں تھا کیونکہ جنرل محمد ضیاء الحق ان سب کے خوفناک حریف تھے‘ جنرل محمد ضیاء الحق بلاشبہ پاکستان کے زیرک‘ پر عزم حکمران تھے جنہوں نے پاکستان کے خبطی اور خیال پرست دشمنوں کو بدترین شکست دی‘ ان میں اعتماد اور اس قدر جرائت تھی کہ انہوں نے دنای کی سب سے بڑی قوت کے صدر کی امداد مونگ پھلی کہہ کر مسترد کردی‘ یہ اس لیے ممکن ہوا کہ وہ ایک با عمل مسلمان تھے اورا سلام کی دی ہوئی قوت اور اپنے وطن پاکستان کے ساتھ ان کے گہرے اخلاص کی وجہ سوپر پاور کے سامنے ڈٹ گئے کہ نہیں چاہیے ہمیں مونگ پھلی‘ اس قدر بہادر اور جرائت مند لیڈر جب دنیا سے رخصت ہوا تو اس کے اثاثوں میں محض دو لاکھ کی رقم تھی اور کوئی کارخانہ‘ فیکٹری‘ ملز اور جاگیر ان کے نام نہیں تھی‘ ان کے حادثے کے بعد بھارت نے سکون کا سانس لیا‘ کیونکہ حربی مہارت سے انہوں نے امریکہ کو نچایا‘ روس کو چکرایا اور بھارت کو بہت ستایا تھا‘ وہ گیارہ سال تک اس ملک کے حکمران رہے‘ کسی دباؤ اور خوف کے بغیر ملک میں بلدیاتی انتخابات اور عام انتخابات کرائے‘ ان انتخابات میں اپنے گھر والوں کو حصہ لینے دیا اور نہ ان کے لیے کوئی سیاسی منصب تخلیق کیا‘ صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے اہل پاکستان کے لیے تاریخ کے اوراق میں خوش گوار یادیں چھوڑی ہیں‘جنرل ضیاء الحق ایک راسخ العقیدہ مسلمان سپہ سالار تھے۔ وہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے‘ 1977ء میں اپوزیشن کی اپیل پر عوام نے اس وقت کے حکمراں ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی تھی، اس کے نتیجے میں آئینی بحران پیدا ہوا جنرل ضیاء الحق کو ملک کا نظم و نسق سنبھالنا پڑا تو تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ ملک کے طول و عرض میں ہر سطح پر عوام نے مارشل لا کا والہانہ استقبال کیا اور اس اقدام کو خوش آمدید کہا۔ لوگوں نے اس قدر مٹھائیاں بانٹیں کہ سوجی اور چینی کے گودام خالی ہو گئے‘ وہ گیارہ سال تک پاکستان کے حکمران رہے‘ لہذا ملک میں ان کے ناقد بھی بہت ہیں اور ان کے ہامی بھی بہت‘ ہامیوں کی تعداد ناقدین سے لاکھوں گنا ذیادہ ہے
ہم بطور شہید صدر کے خاندان کے فرد ہونے کے ناتے کسی سے اس کی رائے کاحق نہیں چھین رہے ہیں‘ لیکن چاہتے ہیں کہ صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے لیے وطن عزیز کو دنیا بھر میں اعلی مقام دلانے کی ان کے حق میں تاریخ کی گواہی بھی تعصب کی گرفت میں دے کر نظر انداز نہیں کرنی چاہیے‘ اور نہ حقائق مسخ کرنے چاہئیں‘ اگر ملک میں سیاسی حالات کاتجزیہ کرنا ہے‘ خرابیوں کی نشان دیہی کرنی ہے تو پھر سکندر مرزا سے بات شروع کی جائے کہ وہ اس ملک میں کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے موجد تھے اور وہ کیسے اس ملک کے صدر بنے؟ اگر تجزیہ کرنا ہے تو پھر حقائق سامنے رکھ کر کیا جائے‘ جنرل محمد ضیاء الحق نے ملکی سلامتی کی جو قسم کھائی ہوئی تھی اس کی پاسداری کی ہے‘1977 میں جب انہیں اقتدار سنبھالنا پڑا‘ پاکستان قومی اتحاد کے راہنماء انہیں کئی خط لکھ چکے تھے‘ ملک کے حالات اس قدر خراب تھے کہ تقریباً سول نافرمانی کی صورت حال تھی‘ خود بھٹو صاحب کے کہنے پر لاہور‘ حیدر آباد اور کارچی میں کرفیو لگایا گیا‘ لیکن جب جنرل محمد ضیاء الحق اقتدار میں آتے ہیں تو ان کے پاس مکمل اختیار تھا‘ اس کے باوجود عاجزی انکساری کی مثال پیش کی‘ اسیربلوچ راہنماؤں کو رہا کیا‘ ملک میں کاروبار زندگی بحال کیا‘اپنے عہد میں انہوں ملک میں اسلامی نظام کی عملی کوشش کی‘ نظام صلوۃ قائم کیا‘ زکوۃ اور عشر کا نظام نافذ کیا‘ غریب مستحق شہریوں کے لیے بیت المال کی بنیاد رکھی‘ پاکستان کے لیے ان کی قومی‘ ملی اور دینی خدمات بہت ہی ذیادہ ہیں‘شہید صدر نے بطور عاشق رسولﷺ‘ تحفظ ختم نبوت ﷺ کے محافظ بن کر متناع قادیانیت آرڈینیس جاری کیا‘ راجہ محمد ظفر الحق کی کوشش سے یہ آرڈینیس تیار کیا گیا‘پاکستان کے سیاسی نظام کو کرپشن‘ بد دیانتی سے بچانے کے لیے آئین میں آرٹیکل62.63 جیسے آرٹیکل شامل کرائے‘ ملک کی خارجہ پالیسی کو متوان‘ مضبوط اور محفوظ بنایا‘ داخلی طور پر ملک میں امن قائم کیا‘ ان کے دور میں بلوچستان میں فوج کشی نہیں ہوئی بلکہ جو کچھ اس حوالے سے سیاسی ورثہ میں ملا تھا‘ صوبے عوام کی بھلائی اور خوش حالی کے لیے بہترین اقدام کیے‘ ملکی تاریخ میں پہلی بار گیس ان کے دور میں کوئٹہ کو فراہم کی گئی اور صوبے میں ذرائع مواصلات بہتر کیے گئے‘ ملک کی مشرقی سرحد کو کرکٹ ڈپلومیسی اور راجیو گاندھی کو سخت پیغام دے کر محفوظ بنایا‘ شمال مغربی سرحدوں کو محفوظ کرنے کے لیے مجاہدین کی عملی مدد کی‘ صدر جنرل محمد ضیاء الحق سیاست دان نہیں بنیادی طور ایک سپاہی تھے‘ پاک فوج ملک کی سلامتی کی ذمہ دار ہے‘ پیشہ سپہ گری سے منسلک ہونے کے روز اول ہی سے ہر آفیسر خواہ اس کا تعلق بری فضائیہ اور بحری فوج سے ہو اس کے ذہن پر یہ بات نقش کردی جاتی ہے کہ اس نے اپنی جان دے کر بھی اپنے قومی علم کو بلند رکھنا ہے اور ملک کا دفاع کرنا ہے ہر روز تقریباتی طور پر صبح سویرے منہ اندھیرے قومی پرچم لہرائے جاتے ہیں کہ اہل عساکر میں اپنے وطن سے محبت اور یگانگت کا جذبہ پیدا کیا جائے“ ملک کے دفاع اور اس کی سلامتی کے اسی جذبے کے تحت‘1950 میں جنرل محمد ضیاء الحق نے گائیڈ کیولری میں شمولیت اختیار کی دس سال تک اسی یونٹ میں رہے‘1955 کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ سے گریجویشن کی‘ اسی کالج میں انسٹرکٹر بھی رہے‘ انہوں نے رسالہ کی ایک کور‘ ایک آرمڈ بریگیڈ‘ ایک آرمز ڈویژن‘ اور ایک کور کی کمانڈ کی‘ جنرل محمد ضیاء الحق‘ سابق آرمی چیف جنرل گل حسن کے سٹاف آفیسر بھی رہے‘52 سال کی عمر میں ملک کے آرمی چیف مقرر ہوئے‘ وہ اعلی کاکردگی کے دلدادہ تھے اور بہترین پریزنٹیشن کے تو گویا شیدائی تھے‘ بے حد ملن سار‘ خوش طبع‘ مہمان نواز تھے‘ ہر کام میں حد درجہ نفاست مانگتے تھے‘ اپنے ملٹری سیکرٹری اور دیگر سٹاف کا تقرر بہت دیکھ بھال کر کرتے اور پھر انہیں اپنے گھر کا فرد ہی سمجھتے تھے‘ فطرت نے انہیں عجیب قوت برداشت سے نوازا تھا‘ وہ اپنے پرانے گھریلو ملازمین کو تبدیل کرنے میں کبھی راضی نہیں ہوتے تھے‘ ساری ساری رات جاگتے مگر کبھی ان کے چہرے پر تھکاوٹ نہیں دیکھی‘ البتہ سفر میں اپنی نیند خوب…… پوری کرتے تھے‘ جنرل ضیاء الحق ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے‘ ان کے سامنے ایک مشن تھا انہوں نے ملت اسلامیہ کے استحکام کے لیے بہت محنت کی‘ مجھے صدر جنرل محمد ضیاء الحق کو بطور والد اور بطور حکمران دیکھنے کا موقع ملا ہے‘ وہ ایک کشادہ ظرف انسان تھے ان کی ذاتی زندگی کبھی بھی کسی قسم کے ہزیمت اور پشیمانی والے کام میں ملوث نہیں رہی تبلیغ اسلام ان کے ایمان کا حصہ تھا اور ان کی آرزو تھی کہ پاکستان میں اسلامی حکومت قائم ہوجائے
آزاد خیالی اور لبرل ازم‘ مادر پدر آزادی کو مغربی معاشرے کے اثرات سے ملک کو بچانا چاہتے تھے انہیں یقین تھا کہ مسلم ممالک صرف اسلام کی تعلیمات پر عمل کرکے ہی اس چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں‘ جنرل محمد ضیاء الحق کی شخصیت ان کے مداحوں اور ان کے نقادوں کی نظر میں ایک الگ الگ رخ لیے ہوئے ہے وہ ہر لحاظ سے ایک طاقت ور حکمران رہے مگرکوئی ان کے دامن پر کسی قسم کے کرپشن کے داغ تلاش نہیں کرسکا‘1979 میں ملٹری کونسل نے انہیں نشان امتیاز (ملٹری) دینے کا فیصلہ کیا مگر انہوں نے یہ پیش کش قبول نہیں کی اور کہا کہ میری کاکردگی کے حسن اور قبیح کا فیصلہ تاریخ اور آئندہ آنے والی نسل پر چھوڑ دیجیے‘ وہ پانچ جولائی1977 سے 17 اگست 1988 تک ملک کے حکمران رہے‘17 اگست ان کی زندگی کا آخری اور پاکستانی قوم کے لیے قومی غم کا دن ثابت ہوا‘ اس روز ان کے طیارے کا حادثہ ہوا اور فوجی وردی میں وہ اس حادثے میں اللہ کے حضور پیش ہوگئے‘17 اگست کو وہ معمول کے مطابق تیار ہوئے ان کے طیارے نے صبح 8 بج کر21 منٹ پر چک لالہ ائربیس سے پرواز کی اور9 بج کر27 پر بہاولپور کے ہوائی اڈے پر بحفاظت اتر گیا‘ روانگی سے قبل چک لالہ ائربیس پر طیارے کی مکمل دیکھ بھال اور جانچ پڑتال کی گئی‘ اور اسے اڑا کر ٹسٹ فلائٹ بھی کی گئی تھی‘ امریکی ٹینک کا معائنہ کرنے کے بعد وہ تقریباً ساڑھے3بجے واپسی کے لیے طیارے میں سوار ہوئے‘ اسی ااثناء میں آموں کے دو کریٹ اور ایک تحفے کا ڈبہ لایا گیا‘ جس میں طیاروں کے یا امریکی ٹینک کے ماڈل تھے‘ C-130 3بج کر 46 پر زمین سے اڑا اور چند منٹوں میں جب ان کا طیارہ دریائے ستلج کے اوپر پہنچا تو اس وقت طیارہ کم بلندی پر تھا‘ اس وقت طیارہ لڑکھڑایا‘ طیارے کا رخ نیچے کی طرف ہوا‘ پھراوپر اٹھا‘ ہچکولے کھاتا ہوا سیدھا زمین پر گرا‘3 بج کر 51 پر طیارہ گرا اور اس کے ساتھ اس میں آگ لگ گئی‘ جائے حادثہ بہاول پور ہوائی اڈے سے تقریباً 9 کلو میٹر دور شمال مغرب کی جانب ہے‘ حادثے کے وقت موسم بھی صاف تھا اور حد نگاہ بھی پانچ کلو میٹر تک تھی موسم کا حادثے سے کوئی تعلق نہیں تھا‘ حادثے کی تحقیقات کے لیے اس وقت ائر کموڈور عباس کی سربراہی میں ایک بورڈ بنایا گیا‘ جس کی تحقیقات میں کہا گیا کہ طیارے کو باہر سے کسی نے نشانہ نہیں بنایا‘ جو کچھ بھی ہوا جہاز کے اندر سے ہی ہوا‘ جس طرح جہاز گرنے سے قبل اوپر نیچے ہوا اور لڑ کھڑایا اس سے اندازہ یہی کیا گیا کہ ہوسکتا ہے کہ پائلٹس کے ساتھ کوئی طبی صحت کامعاملہ ہوا ہو‘ طیارے کے حادثے کی تحقیقات کے لیے جسٹس شفیع کمشن بھی بنایا گیا تھا‘ یہ سب کچھ ایک واقعاتی کہانی کا ہی مواد ہے‘ ہم بطور لواحقین آج تک مطمئن نہیں ہوسکے کہ طیارہ کیوں‘ کیسے گرا‘ اور اس حادثے کے اصل محرکات کیا تھے‘ اگر یہ سازش تھی تو یہ کہاں تیار ہوئی‘ کون اس میں ملوث رہا‘ کس نے کس کے کہنے پر منصوبہ بندی کی‘ بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے طیارے کا مقدمہ اب اللہ کی عدالت میں ہے‘ انہوں نے اس ملک کے لیے‘ قوم کے لیے اور ملت اسلامیہ کے لیے جو کچھ کیا اب وہ سب تاریخ کا حصہ ہے اور تاریخ کا سنہرا باب یہ ہے کہ انہوں نے قرارداد مقاصد‘ کو آئین کا حصہ بنایا‘ اور ملک کے عوام کو سر اٹھاکر جینے کی راہ دکھائی‘ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ملک میں قانون کے مطابق جائز نجی کاروبار کے لیے ہر سرمایہ کار کی حوصہ افزائی کی گئی ان کا اعتماد بحال کیا‘ اسے سرخ فیتے سے اسے نجات دلائی‘ یہی وجہ تھی ملک میں ان کے دور میں کاروبار کو فروغ ملا‘ انہوں نے پاکستان کو قائد اعظم محمد علی جناح اور اقبال کی تعلیمات کے مطابق چلایا اور اس ملک میں اسلام کے نفاذ کی عملی کوشش کی‘ بلاسود بنکاری نظام لائے‘ شہید صدر کے دور میں پہلی بار پاکستان میں اسلامی نظام کے عملی نفاذ کی کوشش ہوئی‘ احترام رمضان المبارک قوانین بنائے گئے‘‘ سرکاری دفاتر میں ظہر کی نماز کا اہتمام کیا جانے لگا‘صدر جنرل محمد ضیاء الحق اور شہدائے بہاولپور کا آج37 واں یوم شہادت ہے‘ یہ ساڑھے تین عشروں کا وقت کیسے گزرا‘ اور کس کرب سے ہم دوچار رہے ہیں‘ یہ المیہ سانحہ سے بڑھ کر ہے کہ آج بھی ہم اور شہید صدر کے لاکھوں چاہنے والے ان حقائق کی تلاش میں ہے جو صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے طیارے C-130 کے حادثے کا سبب بنے‘ اس حادثے کو اگر پاکستان کے حقیقی ریاستی مفادات کے محافظ کے قتل سے تشبیہ دی جائے تو غلط نہیں ہوگا‘ جب بھی شہید صدر کے چاہنے والوں سے ملاقات ہوتی ہے کہ تو مجھے ان کے یہی الفاظ سننے کو ملتے ہیں کہ یہ حادثہ دراصل پاکستان کے حقیقی ریاستی مفادات کے محافظ کا قتل نہیں بلکہ ریاستی مفادات کو گہری منصوبہ بندی کے ذریعے
ایک مکروہ سازش کو کامیاب بنایا گیا تھا‘ پاکستان کی پاکیزہ سرزمین ایک روز ضرور یہ راز اگلے گی اور حقائق آشکارا ہوجائیں گے قوم ابھی تک منتظر ہے‘یہ تمام کے تمام سوالات بطور لواحقین ہم بھی پوچھ رہے ہیں اور آئندہ نسلیں بھی پوچھیں گی جنرل محمد ضیاء الحق نے جب ملک کا نظم و نسق سنبھالا تو اس وقت پاکستان کے حالات بھی نہائت غیر معمولی تھے‘ اپوزیشن جماعتوں کی اپیل پر انتخابی نتائج کے خلاف عوام سراپا احتجاج تھے‘ انتظامی مشینری باالکل نام ہوگئی تھی‘ سرحدوں کے پار بھی صورت حال اچھی نہیں تھی‘ بھارت ایٹمی دھماکہ کرچکا تھا‘ افغانستان میں روسی جارحیت ہوچکی تھی‘ پاکستان میں سیاسی حالات آئینی بحران کی وجہ سے خراب تھے‘ مشرقی… پاکستان کو الگ ہوئے محض چھ سات سال کا عرصہ ہوا تھا‘ ملک ایک مشکل صورت حال میں گھرا ہوا تھا‘ 1979ء میں افغانستان پر روسی جارحیت نے پاکستان کی سلامتی اور اس کے مستقبل کے لیے ایک بڑا خطرہ پیدا کر دیا تھا 71ء میں پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد بلکہ اس سے بھی پہلے روس اور بھارت میں دوستی کے کئی معاہدے ہوئے اور محبت کی پینگیں بڑھیں۔ ادھر امریکہ کو تشویش تھی کہ بھارت کو مکمل طور پر روس کی گود میں چلے جانے سے روکا جائے جب جنرل ضیاء الحق نے جولائی 1977ء میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹرکے طور پر اقتدار سنبھالا تو ملکی حالات کافی کشیدہ اور پیجیدہ تھے۔روسی جارحیت پاکستان کے لیے انتہائی تشویش کا باعث تھی اور اگر روس افغانستان میں اپنے عزائم میں کامیاب اور قدم جما لیتا تو پھر لازمی طورپر اس کی اگلی مہم جوئی کا نشانہ پاکستان ہوتا۔ لیکن کمال حکمت عملی سے مک کو محفوظ بنایا‘جنرل ضیاء الحق نے جس ملی، اخلاقی، مذہبی اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا اور یہ ذمہ داری جس احسن طریقے سے نبھائی اس کی مثال پیش کرنا مشکل ہے اور اس حوالے سے انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا افغان جنگ میں جنرل ضیاء الحق اور ان کے رفقائے کار کے کردار، حکمت عملی، سیاسی اور حربی دانش مندی، تدبر اور تزویراتی منصوبہ بندی کو کبھی بھلایا نہ جائے گا۔ انہوں نے تن تنہاء یہ محاذ سنبھالے رکھا اور امریکہ نے امداد دینا چاہئی مگر انہوں نے امریکی”مونگ پھلی“ نہیں لی اور نہ کبھی امریکیوں سے مرعوب ہوئے تھے جرائت مندانہ فیصلے اور حکمت عملی ان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد تھی‘ ایک بار ایسا ہوا کہ انہیں آگاہ کیا گیا کہ اسلام آباد سے امریکی سفیر پشاور افغان مہاجرین کے کیمپوں کے دورہ کے لیے جارہے ہیں‘ صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے حکم دیا کہ انہیں اچھی طرح بتا دیا جائے کہ وہ واپس آسلام آباد آئیں‘ اگر وہ اٹک کا پل کراس کر جائیں تو انہیں کہہ دیا جائے کہ وہ پشاور سے واپس اسلام آباد نہیں آئیں گے بلکہ وہیں سے کابل چلے جائیں اور کابل سے امریکہ اپنے ملک چلے جائیں‘ یہ پیغام مل جانے پر امریکی سفیر پشاور نہیں گئے تھے بلکہ اسی وقت واپس اسلام آباد آگئے تھے‘ جنرل محمد ضیاء الحق نے فوجی سپہ سالارمگر ایک منجھے ہوئے سیاست دان، مدبر اور انسان دوست مسلمان سربراہ کی حیثیت سے افغان جنگ میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں‘ ان کے دور میں امریکہ کے تحفظات کے باوجود پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام کامیابی سے چلایا اور حکمت عملی ایسی کامیاب رہی کہ امریکی صدر پاکستان کے لیے امداد دیتے وقت ہر سال امریکی کانگریس کی رائے ویٹو کرتے رہے اور ہم اپنا کام کرتے رہے‘ دنیا نے انہیں مستقل مزاجی اور مکمل یک سوئی سے ایک بڑی سپر پاور کے مقابلے میں افغان عوام کے شانہ بشانہ کھڑے دیکھا یہ سب کچھ انہوں نے اس وقت کیا جب پاکستان مالی اور سیاسی طور پر غیرمستحکم تھا اور خطے کی معروضی صورتِ حال کی وجہ سے کئی طرح کی مشکلات اور خطرات میں گھرا ہوا تھا۔ اُس وقت تک پاکستان ایٹمی قوت کی………… شناخت بھی نہ رکھتا تھا۔ افغان قوم کو روس کے پنجہ استبداد سے نجات دلا کر افغانستان کے راستے گرم پانیوں تک پہنچنے کی روسی خواہش کے سامنے بند باندھنابڑا کارنامہ ہے کہ جنرل محمد ضیاء الحق اور ان کے اس جنگ میں فوجی کمانڈروں کو اس کا کریڈٹ نہ دینا نا انصافی ہو گی۔ افغانستان کی روسی جارحیت سے آزادی موجودہ عہد کا ایسا لا زوال واقعہ ہے جس نے احیائے اسلام کی تحریکوں پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ 1977ء میں اپوزیشن کی اپیل پر عوام نے بھٹو حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کی تھی، اس کے نتیجے میں آئینی بحران پیدا ہوگیا تھا جنرل ضیاء الحق کو ملک کا نظم و نسق سنبھالنا پڑا تو تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ کہ لوگوں نے اس تبدیلی پر مٹھائیاں بانٹیں کہ سوجی اور چینی کے گودام خالی ہو گئے۔1979ء میں جب اشتراکی افواج نے افغانستان میں جارحیت کی اور افغان عوام پر چڑھ دوڑیں تو جنرل ضیاء الحق کی سربراہی میں پاکستان کی عسکری قیادت نے بہت سوچ سمجھ کر یہ تاریخ ساز فیصلہ کیا کہ پاکستان کو افغان عوام
کی تحریک آزادی میں مدد کرنی چاہیے۔ افغانستان کی صدیوں کی تاریخ شاہد ہے کہ افغان قوم نے بیرونی حملہ آوروں کو کبھی قبول نہیں کیا، افغان جنگجو قوم ہے۔ وہ ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کے خلاف برسر پیکار رہتی آئی… ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر صدیوں کی تاریخ میں کوئی ایسا وقت آیا کہ جب افغان قوم کو بیرونی حملہ آوروں سے نجات نصیب ہوئی تو یہ قوم آپس میں ہی میدان جنگ سجا کر بیٹھ گئی اور مختلف قبائل یا گروہ آپس میں لڑتے رہے۔جنرل ضیاء الحق مرحوم نے اپنے کمانڈروں کے ساتھ مل کر جو پالیسی مرتب کی اس میں امریکیوں جب اشتراکی افواج نے افغانستان میں جارحیت کی اور افغان عوام پر چڑھ دوڑیں تو جنرل ضیاء الحق کی سربراہی میں پاکستان کی عسکری قیادت نے بہت سوچ سمجھ کر یہ تاریخ ساز فیصلہ کیا کہ پاکستان کو افغان عوام کی تحریک آزادی میں مدد کرنی چاہیے۔ افغانستان کی صدیوں کی تاریخ شاہد ہے کہ افغان قوم نے بیرونی حملہ آوروں کو کبھی قبول نہیں کیا، افغان جنگجو قوم ہے۔ وہ ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کے خلاف برسر پیکار رہتی آئی… ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر صدیوں کی تاریخ میں کوئی ایسا وقت آیا کہ جب افغان قوم کو بیرونی حملہ آوروں سے نجات نصیب ہوئی تو یہ قوم آپس میں ہی میدان جنگ سجا کر بیٹھ گئی۔جنرل ضیاء الحق مرحوم نے اپنے کمانڈروں کے ساتھ مل کر جو پالیسی مرتب کی اس میں امریکیوں کو افغان مجاہدین تک براہ راست رسائی سے روکنا افغان پالیسی کا اہم حصہ تھا۔ پاکستان ہی افغانستان میں مجاہدین کی مدد کرتا رہا۔ امریکیوں کے ساتھ جو بھی معاملات طے کیے جاتے وہ پاکستان ہی طے کرتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب جنرل ضیاء الحق پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے خصوصاً عالم عرب میں وہ ایک مسلمان جرنیل ہونے کے باعث ہیرو کے طورپرپسندکیے جاتے اورعام لوگ ان سے والہانہ محبت بھرے جذبات رکھتے تھے۔جنرل ضیاء الحق کی افغان جنگ میں مددکی پالیسی نے امریکہ اور پاکستان کو قریب کر دیا تھا جس سے بھارت تشویش میں مبتلا تھابھارت کے بے پناہ شور شرابے کے باوجود پاکستان نے اپنے معاملہ فہم زیرک اور حرب و ضرب کے ماہر سپہ سالار جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں اپنے ایٹمی پروگرام کو رفتہ رفتہ آگے بڑھایا‘ ان کے دور پاکستان نے کولڈ ٹسٹ کرلیا تھا اور چاغی کی ٹنل بھی انہی کے دور میں تیار کی گئی کسی نے بھارت کی آہ و بکا، واویلے اور شور شرابے پر کان نہ دھرے۔ بھارت روتا پیٹتا اور شور مچاتا رہا جبکہ جنرل ضیاء الحق خاموش رہ کر پروقار انداز میں اپنی مدبرانہ سوچ اور صلاحیت سے اپنے ملک کے لیے کام کرتے رہے اور جوہری پروگرام کو آگے بڑھاتے رہے صدر ضیاء الحق نے جس ہمت، جواں مردی اور حکمت عملی سے کئی برسوں تک روسی جارحیت کا مقابلہ کیا یہ ایک طرح سے کابل کا نہیں اسلام آباد کا دفاع تھا۔ اگر خدانخواستہ روس ”کابل“ کو فتح کرلیتاتوآج پاکستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ آزادی کیلیے قیامِ پاکستان کے وقت بھی قربانیاں دی گئی تھیں اور آج بھی محب وطن پاکستانی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں 17اگست 1988ء کے شہداء بہاول پور نے اپنے دل رنگ لہو سے ارضِ پاکستان کی آب…یاری کی۔جنرل ضیاء الحق اپنے رفقا ء کار کے ساتھ ایک گہری سازش کے ذریعے فضائی حادثے میں شہید ہوئے پاکستان کی تاریخ میں اتنی بڑی عسکری قیادت کو منظر سے ہٹا دینا بہت بڑا قومی سانحہ تھاکیونکہ اتنی بڑی تعداد میں جرنیلوں کا ایک ساتھ ایک ہی جہاز میں سوار ہونا خلاف ضابطہ تھا مشہور تجزیہ کار بروس ریڈل (Bruce Reidell) لکھتا ہے کہ سویت یونین کو شکست دینے کیلیے سی آئی اے کا ایک بھی افسر افغانستان میں نہیں گیا۔ سی آئی اے نے کسی کو بھی وہاں تربیت نہیں دی اور نہ ہی سی آئی اے کا کو ئی اہلکار افغانستان میں زخمی ہوا یا اس جنگ میں مارا گیا تھا۔ نہ کوئی جانی نقصان ہوا تھا کیونکہ ہم نے خطرہ مول ہی نہیں لیا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ سوویت یونین کے خلاف یہ صرف افغان مجاہدین کی جنگ نہیں تھی۔ یہ صرف مجاہدین کی جنگ تھی نہ یہ سی آئی اے کی‘ یہ صرف ایک آدمی کی جنگ تھی اور اُس آدمی کا نام محمد ضیاء الحق تھا‘روسی جارحیت کے خلاف افغانستان کی آزادی کے لیے جدوجہد میں افغانوں کی مدد اور 35 لاکھ سے زائد مہاجرین کو خوش دلی سے پناہ دے کر جنرل ضیاء الحق نے جس ملی، اخلاقی، مذہبی اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا اور یہ ذمہ داری جس احسن طریقے سے نبھائی اس کی مثال پیش کرنا مشکل ہے اور اس حوالے سے جنرل محمد ضیاء الحق شہید کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا افغان جنگ میں جنرل ضیاء الحق اور ان کے رفقائے کار کے کردار، حکمت عملی، سیاسی اور حربی دانش مندی، تدبر اور تزویر کو کبھی بھلایا نہ جائے گا۔ شہید صدر نے بطور فوجی سپہ سالار، ایک منجھے ہوئے سیاست دان، مدبر اور انسان دوست مسلمان سربراہ کی حیثیت سے افغان جنگ میں انمٹ
نقوش چھوڑے ہیں۔ دنیا نے انہیں مستقل مزاجی اور مکمل یک سوئی سے ایک بڑی سپر پاور کے مقابلے میں افغان عوام کے شانہ بشانہ کھڑے دیکھا یہ سب کچھ انہوں نے اس وقت کیا جب پاکستان مالی اور سیاسی طور پر غیرمستحکم تھا اور خطے کی معروضی صورتِ حال کی وجہ سے کئی طرح کی مشکلات اور خطرات میں گھرا ہوا تھا۔ اُس وقت تک پاکستان ایٹمی قوت کی شناخت بھی نہ رکھتا تھا۔ افغان قوم کو روس کے پنجہ استبداد سے نجات دلا کر افغانستان کی آزادی کی شمع روشن کرنے کا کارنامہ ایسا بڑا کارنامہ ہے کہ جنرل محمد ضیاء الحق اور ان کے اس جنگ میں فوجی کمانڈروں کو اس کا کریڈٹ نہ دینا نا انصافی ہو گی۔ افغانستان کی روسی جارحیت سے آزادی موجودہ عہد کا ایسا لا زوال واقعہ ہے جس نے احیائے اسلام کی تحریکوں پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں‘ مگر یہ جنگ اور فتح جنیوا معاہدے کی غلاف میں لپیٹ دی گئی اور یہی امریکہ کی سب سے بڑی کامیابی تھی‘ اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ صدر جنرل محمد ضیاء الحق ہی تھے‘مشہور تجزیہ کار بروس ریڈل (Bruce Reidell) لکھتا ہے کہ سویت یونین کو شکست دینے کیلیے سی آئی اے کا ایک بھی افسر افغانستان میں نہیں گیا۔ سی آئی اے نے کسی کو بھی وہاں تربیت نہیں دی اور نہ ہی سی آئی اے کا کو ئی اہلکار افغانستان میں زخمی ہوا یا اس جنگ میں مارا گیا تھا۔ نہ کوئی جانی نقصان ہوا تھا کیونکہ ہم نے خطرہ مول ہی نہیں لیا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ سویت یونین کے خلاف یہ جنگ صرف مجاہدین کی جنگ نہیں تھی۔ نہ یہ صرف مجاہدین کی جنگ تھی نہ یہ سی آئی اے کی جنگ تھی۔ یہ صرف ایک آدمی کی جنگ تھی اور اُس آدمی کا نام محمد ضیاء الحق تھا‘جنیوا سمجھوتے کے بعد کسی اخبار نویس نے جنرل ضیاء الحق سے استفسار کیاکہ اب جبکہ روسی فوجیوں کی واپسی اور افغانستان کی آزادی چند ہی دنوں کی بات ہے تو آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے۔ جس کا جواب جنرل صاحب نے یہ دیا کہ میری اس وقت سب سے بڑی خواہش ہے کہ میں پل چرخی کی جامع مسجد میں دو رکعت نفل شکرانہ ادا کروں لیکن شہادت نے اُن کو کہ مہلت نہ دی میں یقین سے کہ سکتا ہوں کہ اپنے ۱۱ سالہ طویل اقتدار کے دوران اُنہوں نے جناب بھٹو کے متعلق صرف ایک مرتبہ اتنا کہا تھا کہ ” مسٹر بھٹو نے اس ملک کو تباہ کر دیا ہے ”میں ضیاء الحق کے ناقدین اور مخالفین سے درخواست کرتا ہوں کہ اس ایک مختصر سے فقرے کے علاوہ کوئی اور واقع یا موقع اُن کے علم میں ہو تو مجھے ضرور مطلع کریں۔ جنرل ضیاء الحق اپنے تمام دکھ درد اپنے سینے میں سمیٹنے اور سنبھالنے کا ہنر جانتے تھے۔ اُنہوں نے کبھی کسی سے کسی کے متعلق کوئی شکوہ یا شکایت نہیں کی۔
ٌّصلہ ء شہید کیا ہے، تب و تاب جاودانہ
