اسلام آباد———-قائم مقام امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ ہر انتخاب کو ہائی جیک کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی آلہ کار بنتا ہے، ہائبرڈ نظام عدلیہ اور آئینی اداروں کے حقوق کو غصب کر رہا ہے، ملک میں نئی بنیادوں پر قومی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، نئے صوبوں کے قیام کے لیے آئین سے ہٹ کر کوئی راستہ اختیار کرنا ملکی وحدت کو خطرے میں ڈال دے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے یوم تاسیس کے حوالے سے ”حیات خورشید“ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب سے سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق، رہنما پیپلزپارٹی سید نیئر حسین بخاری، فرحت اللہ بابر، نائب امرا جماعت اسلامی پروفیسر ابراہیم خان، میاں اسلم، چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمان، پروفیسر خورشید کے بھائی ڈاکٹر انیس احمد، امیر اسلام آباد نصراللہ رندھاوانے بھی خطاب کیا۔
لیاقت بلوچ نے کہا کہ مولانا مودودیؒ نے بڑے مقصد کے لیے افراد تیار کیے ہیں، مولانا کی پوری فکر کا پروفیسر خورشید نمایاں پھول تھے، اس پھول کی خوشبو ہمیشہ مہکتی رہے گی، دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کی نظر میں پروفیسر خورشید کا ایک اہم مقام تھا، انھوں نے تحریک آزادی کشمیر میں اہم کردار ادا کیا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم میں پروفیسر خورشید کا اہم کردار تھا، انھوں نے اس موقع پرجماعت اسلامی کی مرکزی شوری کے فیصلے کی روشنی میں اختلافی نوٹ لکھا تھا۔
قائم مقام امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ملک سیاسی، آئینی اور معاشی بحران کا شکار ہے، ہائبرڈ نظام عدلیہ اور آئینی اداروں کے حقوق کو غصب کر رہا ہے۔قومی قیادت بالغ نظری سے آگے بڑھنا ہو گا، کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس کی حکومت چل رہی ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ مقبولیت کی بنیاد پر بات چیت کرے گا تو یہ بھی غلط فہمی ہے، سیاسی قیادت کو بالغ نظری کے ساتھ قومی ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ ملک میں جب کبھی سیاسی بحران پیدا ہوں تو سیاسی، صحافی اور سول سوسائٹی کے سینئر لوگ آگے بڑھتے ہیں، اس بار پھر ان لوگوں کوآگے بڑھنا ہو گا، لیاقت بلوچ نے کہا کہ عوام جو بھی مینڈیٹ دے نتیجے کی تیاری کی نئی شکلیں اختیار کر لی جاتی ہیں، اس طرح کی روش کو بدلنا ہو گا۔
سراج الحق نے کہا کہ نظریاتی لوگ مرتے نہیں، پروفیسر خورشید آج بھی دلوں اور ذہنوں میں زندہ ہیں، ان کے جانے سے صرف پاکستان اور جماعت اسلامی کو نقصان نہیں ہوا،بلکہ یہ دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کا نقصان تھا۔ ہمیں پروفیسر خورشید کے علمی کام کو محفوظ بنانا اور آگے لے کر جانا ہے، پروفیسر خورشید نے خیبرپختونخوا کا بجلی کا خالص منافع لے کر دیا، خیبر پختونخوا کو اس کے حصے کا 110 ارب روپے ملے۔ پروفیسر خورشید پاکستان، ایران اور افغانستان کا ایک بلاک دیکھنا چاہتے تھے۔
نیئر حسین بخاری نے کہا کہ پروفیسر خورشید احمد نے سینیٹ میں قانون سازی میں اہم کردار ادا کیا، پروفیسر خورشید آنے والی نسلوں کے لیے ایک اثاثہ چھوڑ گئے ہیں۔ نئی نسل کو ان کی کتابوں سے سیکھنا ہو گا، سوشل میڈیا نئی نسل کے سیکھنے کے لیے کافی نہیں، ملک کی بہتری کے لیے پروفیسر خورشید جیسی قیادت لازمی ہے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پروفیسر خورشید کے ساتھ باہمی احترام کا رشتہ تھا، پروفیسر خورشید چاہتے تھے کہ کوئی باہر سے پارلیمنٹ پر اثر انداز نہ ہو۔
