ہزارہ کی پہچان کا مسئلہ کوئی وقتی نعرہ نہیں بلکہ ایک تاریخی حقیقت ہے، جس کی جڑیں پاکستان کے قیام سے بھی پہلے کی ہیں۔ یہ خطہ اُس دن سے اپنی شناخت کی جدوجہد میں ہے جب برصغیر کے مسلمانوں نے ایک علیحدہ وطن کا خواب دیکھا اور پھر اسے حقیقت کا روپ دیا۔ جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا، ہزارہ کے عوام نے “پاکستان زندہ باد” کے فلک شگاف نعروں کے ساتھ اس تحریک میں بھرپور کردار ادا کیا۔ 1947 کے ریفرنڈم میں، جہاں کئی خطے تذبذب کا شکار تھے، ہزارہ کے عوام نے غیر متزلزل انداز میں پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا اور یوں یہ خطہ ملک کا مضبوط قلعہ بن گیا۔ یہ ایک ایسی بنیاد تھی جس پر پاکستان کی سالمیت اور استحکام کی عمارت کھڑی ہوئی۔ لیکن افسوس صد افسوس، اس والہانہ قربانی، اس مثالی وفا اور اس بے لوث حمایت کے صلے میں ہزارہ کو وہ حق، وہ مقام اور وہ شناخت کبھی نہ مل سکی جس کا وہ حقیقی معنوں میں حقدار تھا۔ یہ ایک ایسی محرومی ہے جس نے اس خطے کے عوام کے دلوں میں گہرے زخم چھوڑے ہیں۔
ہزارہ کے عوام نے صرف جذباتی نعرے نہیں لگائے، بلکہ عملی قربانیاں دیں۔ ان کی قربانیاں محض لسانی یا جذباتی نہیں تھیں بلکہ ان کی زمینوں، ان کے گھروں اور ان کی بستیوں کے مٹ جانے کی صورت میں سامنے آئیں۔ جب پاکستان کی ترقی کے لیے خانپور ڈیم اور تربیلا ڈیم جیسے عظیم الشان منصوبے بنائے گئے، جنہیں ملک کی معاشی شہ رگ سمجھا جاتا ہے، تو اس کی بھاری قیمت ہزارہ کو چکانی پڑی۔ ان منصوبوں کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ زرخیز زمینیں، کئی دیہات اور آبادیاں پانی میں ڈوب گئیں، خاندان بے گھر ہوئے اور ان کے آبائی قبرستان بھی پانی کے حوالے ہو گئے۔ لوگ اپنی صدیوں پرانی جڑوں سے اکھڑ کر ہجرت پر مجبور ہو گئے، ان کی معیشت تباہ ہوئی اور ان کی معاشرتی ساخت درہم برہم ہو گئی۔ ہزارہ نے اپنی زمینیں، اپنے وسائل، اپنی بستیوں اور اپنے ثقافتی ورثے کو ملک کی ترقی کی خاطر قربان کر دیا۔ یہ ایک ایسی قربانی تھی جس کا اعتراف آج تک پوری طرح نہیں کیا گیا۔ مگر اس کے باوجود، یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ نہ تو یہاں کے عوام کو ان ڈیموں سے پیدا ہونے والی سستی بجلی ملی، نہ ہی انہیں روزگار کے وہ مواقع فراہم کیے گئے جو ان منصوبوں کا بنیادی مقصد تھا، اور نہ ہی انہیں ترقی کے وہ ثمرات نصیب ہوئے جن کی بنیاد پر ان سے یہ قربانیاں مانگی گئی تھیں۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جو آج بھی ہزارہ کے ہر فرد کے دل میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے۔
یہ حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ پاکستان کے دیگر خطوں کے عوام نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے کس طرح اپنے وسائل کو حکمت عملی کے ساتھ استعمال کیا۔ اس کی ایک واضح مثال ہمارے کشمیری بھائیوں کی ہے۔ انہوں نے اپنے وسائل، خاص طور پر “ٹمبر کے ڈنڈے” کو ایک علامت کے طور پر پیش کیا اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ڈٹ گئے۔ اس حکمتِ عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنی بجلی تین روپے فی یونٹ کی انتہائی کم قیمت پر حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ کوئی منفی یا تخریبی عمل نہیں تھا، بلکہ ایک عملی اور مؤثر حکمتِ عملی تھی — اپنے قیمتی وسائل کے بدلے اپنا جائز حق حاصل کرنا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کشمیری عوام یہ کر سکتے ہیں، تو پھر ہزارہ والے کیوں نہیں؟ ہم نے اپنے لوگوں کو خانپور ڈیم اور تربیلا ڈیم کے پانیوں میں دفنا دیا، اپنی قیمتی زمینیں ملک کے نام پر قربان کر دیں، اپنی آبائی بستیوں کو پانی میں ڈوبا دیا، لیکن اس کے باوجود نہ ہمیں سستی بجلی ملی، نہ ہمارے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع، اور نہ ہی ہمیں ان ترقیاتی منصوبوں کا حصہ بنایا گیا جن کے لیے ہم نے سب سے بڑی قربانی دی۔ یہ ایک صریح ناانصافی ہے اور اس پر آواز اٹھانا، اس پر احتجاج کرنا اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنا ہمارا آئینی، اخلاقی اور بنیادی حق ہے۔ خاموشی اب مزید ممکن نہیں۔
اس ناانصافی کا سلسلہ یہیں نہیں رکا، بلکہ 2010 میں ہزارہ پر ایک اور کاری ضرب لگائی گئی۔ صوبہ سرحد کا نام تبدیل کر کے خیبر پختونخوا رکھ دیا گیا، اور یہ فیصلہ ہزارہ کے عوام کی رائے، ان کی امنگوں اور ان کی تاریخی شناخت کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے کیا گیا۔ یہ فیصلہ ہزارہ کی صدیوں پرانی شناخت کو مسخ کرنے کی ایک سوچی سمجھی کوشش تھی۔ ہزارہ کو زبردستی ایک ایسی نئی شناخت میں دھکیل دیا گیا جس سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ جب ہزارہ کے لوگ اس غیر جمہوری اور آمرانہ فیصلے کے خلاف سڑکوں پر نکلے، جب انہوں نے اپنی شناخت کے دفاع کے لیے پرامن احتجاج کیا، تو ان پر گولیاں برسائی گئیں۔ اپریل 2010 کے شہداء، جن کے خون سے ہزارہ کی سڑکیں رنگین ہوئیں، آج بھی ہماری تاریخ کے صفحات پر روشن حروف سے رقم ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ وہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ہزارہ والوں نے اپنی شناخت کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دی۔ یہ زخم معمولی نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا ناسور ہے جو آج بھی رس رہا ہے اور ہر ہزاروی کے دل میں اضطراب پیدا کرتا ہے۔ یہ فیصلہ محض ایک نام کی تبدیلی نہیں تھی، بلکہ ہزارہ کی ثقافت، تاریخ اور اس کی آزادی پر ایک منظم حملہ تھا۔
لیکن الحمدللہ! وقت نے کروٹ لی ہے اور ہزارہ کے عوام اب جاگ اٹھے ہیں۔ انہوں نے حالیہ انتخابات میں یہ ثابت کر دیا کہ وہ ظلم اور ناانصافی کرنے والوں کو مزید برداشت نہیں کریں گے۔ یہ بیداری کوئی عارضی نہیں بلکہ ایک پختہ عزم کا اظہار ہے۔ نواز شریف کو شکست دے کر ہزارہ نے یہ واضح پیغام دیا کہ اب مزید استحصال اور محرومی برداشت نہیں کی جائے گی۔ یہ شکست محض ایک سیاسی ہار نہیں تھی، بلکہ یہ ہزارہ کی گونجتی ہوئی آواز ہے — ایک ایسا نعرہ جو چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ہمارے ساتھ مزید ناانصافی نہ کی جائے۔ تحریک انصاف کے پرچم تلے ہزارہ کے عوام نے یہ عزم کیا ہے کہ وہ اپنی پہچان، اپنے حقوق اور اپنے صوبے کے حصول کے لیے ہر قربانی دیں گے۔ آنے والے انتخابات میں بھی یہی پیغام دیا جائے گا کہ ہزارہ والے اپنے فیصلے خود کریں گے، وہ کسی تخت لاہور یا تخت پشاور کے تابع نہیں رہیں گے۔ اب ہزارہ کی تقدیر کے فیصلے ہزارہ کی دھرتی پر ہی ہوں گے۔
ہزارہ کی یہ جدوجہد کسی کے خلاف نفرت یا عناد پر مبنی نہیں ہے۔ یہ کسی دوسرے صوبے یا خطے کی ترقی کے خلاف نہیں ہے۔ یہ صرف اور صرف اپنے حق کے حصول کی تحریک ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ دوسروں کے صوبے نہ بنیں، یا دیگر محروم خطوں کو ان کا حق نہ ملے۔ ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ جب ملک میں نئے صوبوں، جیسے سرائیکستان، جنوبی پنجاب یا سندھ کے نئے صوبوں کی بات ہو، تو ہزارہ کو کیوں بھلا دیا جاتا ہے؟ کیا ہزارہ نے پاکستان کے ساتھ وفا کر کے کوئی “جرم” کیا تھا؟ کیا پاکستان کے ساتھ بے لوث کھڑے ہونے کی یہ سزا ہے؟ ہزارہ والے اپنے حصے کا حق مانگتے ہیں، اپنی جغرافیائی، تاریخی اور ثقافتی شناخت کا حق مانگتے ہیں۔ یہ ایک شائستہ مگر پراثر آواز ہے جو اب دبائی نہیں جا سکتی۔ یہ آواز ایک طوفان کا پیش خیمہ ہے جو اپنے حقوق لے کر ہی دم لے گا۔
ہزارہ صوبہ تحریک کے شہداء ہماری تاریخ کا روشن ترین باب ہیں۔ ان کی قربانیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ قربانی کے بغیر حق نہیں ملتا۔ انہوں نے اپنے خون سے اس دھرتی کو سینچا اور آزادی کی شمع روشن کی۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دینا چاہیے۔ ان شہداء کا پاک خون اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ ہزارہ کو اس کا جائز اور آئینی حق دیا جائے۔ یہ اب اربابِ اختیار پر منحصر ہے کہ وہ ہزارہ کے عوام کی اس پرزور آواز کو سنیں، ان کے جائز مطالبات کو تسلیم کریں، اور انہیں ان کا حق دیں۔ بصورت دیگر، انہیں تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر ان سوالوں کا جواب دینا پڑے گا جن کے جواب ان کے پاس نہیں ہوں گے۔ ہزارہ والے اب خاموش نہیں رہیں گے۔ یہ تحریک محض نعرے بازی اور جلسے جلوسوں کا نام نہیں، بلکہ یہ ہماری آئندہ نسلوں کے لیے شناخت، بقا اور خود مختاری کی جدوجہد ہے۔ یہ جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہزارہ کو اس کا آئینی اور جائز مقام نہیں مل جاتا۔
آخر میں، میں یہی کہوں گا کہ ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی، لیکن ہزارہ کے عوام کا سوال حقیقت ہے اور حقیقت کو زیادہ دیر تک دبایا نہیں جا سکتا۔ یہ سوال ملک کے ضمیر سے پوچھا جا رہا ہے اور اس کا جواب ملنا ضروری ہے۔ کیا ہزارہ کو اس کا حق ملے گا؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
