اسلام آباد،——-اسکولوں میں تولیدی صحت کی تعلیم سے متعلق سینٹ میں تجویز کردہ بل نہ صرف تکنیکی اور موضوعاتی کمزوریوں کا شکار ہے بلکہ آئینی دفعات کے ساتھ اس کی مطابقت، اور سماجی اقدار و اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگی کے حوالے سے بھی متعدد خدشات کو جنم دیتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ صحت اور اخلاقی تعلیم کا ایک ایسا فریم ورک تیار کیا جائے جو ایک طرف ٹیکنالوجی کی تبدیلی اور بدلتے سماجی رجحانات جیسے عصری تقاضوں کا جواب دینے والا ہو اور دوسری طرف پاکستان کی ثقافتی و مذہبی بنیادوں کی عکاسی کرتا ہو۔ اس فریم ورک میں والدین کے اس بنیادی کردار کو تسلیم کرنا چاہیے جو وہ نوجوان نسل کی اخلاقی تربیت میں ادا کرتے ہیں، اور یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ تعلیمی اقدامات مقامی روایات پر استوار ہوں، نہ کہ بیرونی ماڈلز کی اندھی تقلید پر۔ یہ بات انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)، اسلام آباد کے زیراہتمام منعقدہ ایک گول میز اجلاس میں زیر بحث آئی۔ یہ اجلاس ’لیجسلیٹو واچ‘ پروگرام کے تحت منعقد کیا گیا تاکہ گذشتہ ماہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت سے منظور ہونے والے اس مجوزہ بل کے مختلف پہلوؤں کا تنقیدی جائزہ لیا جا سکے۔ اجلاس میں عمران شفیق ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، سینیئر ماہرِ تعلیم ارشد سعید خان، مذہبی اسکالر ڈاکٹر وقاص خان، معروف وکیل امینہ سہیل، قانونی مبصر سید معاذ شاہ، نصاب سازی کے ماہر عمار محبوب، سماجی کارکن اور مفکر ڈاکٹر ام کلثوم، ایڈووکیٹ محمد بن ساجد، اور چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمان سمیت معاشرے کے مکتلف طبقات سے تعلق رکھنے والے ماہرین، ساتذہ اور نوجوانوں نے شرکت کی۔ اس فورم نے علما، ماہرین تعلیم، پالیسی سازوں، قانون سازوں، سماجی کارکنوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو یکجا کیا تاکہ اس امر پر غور کیا جا سکے کہ تعلیمی ضروریات کو کس طرح ثقافتی و مذہبی تقاضوں کے ساتھ متوازن بنایا جائے۔ مقررین نے تجویز دی کہ ازدواجی و خاندانی معاملات، میاں بیوی کے کردار اور ذمہ داریوں، اور حیا جیسی اقدار سے متعلق تعلیم ایسے فریم ورک کے ذریعے دی جائے جو مقامی تہذیب و ثقافت سے جڑا ہوا ہو۔ شرکاء نے تعلیمی، سماجی اور قانونی زاویوں سے اس معاملے پر غور کیا۔ 1976ء کے اصل قانون اور اس میں مجوزہ ترمیم کے متن کا جائزہ لیتے ہوئے دیکھا گیا کہ وضاحت، دائرہ کار اور قانون سازی کے طریقہ کار کے حوالے سے کئی سوالات باقی ہیں۔ متعدد مقررین نے اس بل کی آئینی دفعات، اصل قانون کے مقاصد، سماجی اقدار اور اسلامی تصورِ حیات کے ساتھ مطابقت پر تحفظات کا اظہار کیا۔ اگرچہ یہ تسلیم کیا گیا کہ ٹیکنالوجی کی تبدیلیاں اور بدلتے سماجی رویے سوچ سمجھ کر مداخلت کے متقاضی ہیں، تاہم بعض شرکاء نے خبردار کیا کہ یہ اقدام پاکستان کے تعلیمی نظام میں مغربی تصوراتِ جنسیت کو متعارف کرانے کا ذریعہ بن سکتا ہے، جو قومی اخلاقی اور ثقافتی ڈھانچے سے متصادم ہوگا۔ دوسری جانب کچھ مقررین نے تجویز دی کہ وسیع تر مشاورت، علمی بنیاد پر کی گئی تحقیق اور معروضی حالات کو سامنے رکھ کر ہی اس اہم مسئلے کے حوالے سے لائحۂ عمل تیار کیا جائے ۔ مقررین نے پالیسی تضادات کو بھی اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے تحت 18 سال سے کم عمر میں شادی پر پابندی ہے لیکن بچے انٹرنیٹ کے ذریعے کھلے عام مواد تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں اور مخلوط تعلیم کے بڑھتے رجحان سے متاثر ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق اس مسئلے کے لیے مقامی ثقافت کے تناظر میں ایک جامع حکمت عملی درکار ہے۔ سماجی روابط کے اصول و ضوابط، کردار، حقوق و ذمہ داریاں، اور مجازی دنیا سے پیدا ہونے والے اخلاقی چیلنجز ایسے ذرائع سے حل نہیں ہو سکتے جو خود مغربی معاشروں میں بھی کامیاب نہ ہو سکے ہوں۔ متعدد مقررین نے اس امر پر زور دیا کہ نوجوانوں کو اخلاقی رہنمائی دینے میں والدین، خاندان اور برادری کا مرکزی کردار ہونا چاہیے، نہ کہ یہ ذمہ داری محض کلاس رومز کو سونپ دی جائے۔ فورم میں آئین کے آرٹیکلز 31، 35 اور 227 کے حوالے سے قانونی اور آئینی پہلوؤں پر بھی بات کی گئی، جن کے مطابق اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگی اور خاندانی نظام کا تحفظ لازمی ہے۔ شرکاء نے اس مداخلت کے حق میں مقامی شواہد کی کمی اور سینیٹ کمیٹی کی سفارشات میں عمر کی حد اور والدین کی اجازت سے متعلق ابہام کو بھی اجاگر کیا۔ اپنے اختتامی کلمات میں خالد رحمان نے پالیسی سازوں پر زور دیا کہ اس تجویز کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے اور صحت و اخلاقی تعلیم کے لیے ایک ایسا مقامی اور اقدار پر مبنی فریم ورک تیار کیا جائے جو ایک طرف عصری چیلنجز کا سامنا کر سکے اور دوسری طرف پاکستان کی ثقافتی و مذہبی بنیادوں کی عکاسی کرے۔
