ایک مہکتی پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر چیرتی ہوئی شام کی رو داد

راولپنڈی
ایک مہکتی شام کی رو داد
ہر انسان کے دوسرے انسان پر کچھ حقوق ہیں‘ سب سے بڑا اور اہم حق یہ ہے کہ اگر کوئی انسان اس دنیا فانی سے رخصت ہوجائے تو اس کی خوبیوں کا تذکرہ کیا جائے اور مالک کل جہان سے اس کے حق میں مغفرت طلب کی جائے اور رحمتیں مانگی جائیں‘ ایسے ہی حقوق العباد کی عملی تصویر جناب بردار بزرگ ڈاکٹر فرخ عطاء‘ جناب ذی وقار محترم قبلہ حافظ نسیم خلیل اور جناب برادر سید عبدالطیف شاہ نے ایک ایسی محفل سجا کر پیش کہ جس میں افضل مرزا کے چاہنے والوں‘ اس کے غم گساروں اور بہی خواہوں کے ہر رنگ کے پھول جمع کیے‘ ایک پھولوں کی رنگت الگ الگ مگر رعنائی‘ تازگی اور چاشنی ایک جیسی ہے‘ یہ ایک ایسی محفل تھی جس میں سینیئرز کو کم ویش چالیس برسوں کے بعد اپنا یاد گار ماضی دہرانے کرنے کا موقع ملا‘ اور محفل میں موجود نئے دوستوں کو شاندار سیاسی ماضی کے واقعات سننے کے لمحات میسر آئے اور اس کی روشنی میں آگے بڑھنے کی تحریک ملی‘ اس محفل کے انعقاد کے لییجناب بردار بزرگ ڈاکٹر فرخ عطاء‘ جناب برادر زی وقار حافظ نسیم خلیل اور جناب برادر سید عبدالطیف شاہ کی خدمات اور اس کاوش نے افضل مرزا کے بطور انسان‘ دوست‘ سیاسی کارکن اور ان کے اخلاقی قدروں کے کردار کو جلا بخشی اور امر کردیا‘ یہ محفل 12 ستمبر کو قرآن مجید کا نور پھیلانے والی عمارت الخلیل قرآن کمپلیکس کالج روڈ میں منعقد کی گئی‘ اس محفل کا نچوڑ یہ تھا کہ رخصت ہوجانے والے احباب اور دوستوں ان کے کرداروں کو زندہ رکھا جائے اور ان کے کرداروں سے راہنمائی لی جاتی رہے‘ اور ان کے انسانیت دوست کردار اگلی نسل تک منتقل کیے جائیں‘ اس لحاظ سے یہ محفل ہم سب کے لیے سعادت مند رہنے اور مثبت سوچ کے زاویے سیکھنے کا ایک ذریعہ بنی‘ اس محفل کا حاصل حصول یہ بھی تھا کہ ملک میں سیاسی کلچر فروغ دینے اور رواداری کا ماحول پیدا کرنے کے لیے بات چیت اور ڈائیلاگ کی ضرورت ہے‘ دلیل کے ساتھ بات کرنے اور اپنی بات منوانے سے معاشرے میں روداری اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا کلچر پروان چڑھے گا‘ تقریباً تمام مقررین نے اسی نکتہ پر اظہار خیال کیا ہے اور گفتگو کا مرکزی خیال بھی یہی رہا‘ عزیزم امر ربی خلیل نے تلاوت قرآن مجید فرقان حمید سے تقریب کا آغاز کیا اور تلاوت کے لیے ایسی سورہ منتخب کی جس میں اللہ تعالی نے نیک بندوں کے لیے بے شمار رحمتوں اور فضل و کرم کی وعدے کیے ہیں‘ سہیل انجم فاروقی نے نعت رسول مقبولﷺ کا نذرانہ عقیدت پیش کیا اور افضل مرزا کے لیے لکھی ہوئی نظم پڑھی‘ جناب حافظ نسیم خلیل نے تقریب کے شرکاء میں قرآن مجید کے نسخے تحفتاً تقسیم کیے اور افضل مرزا سمیت دیگر مرحومین کے لیے رقت آمیز مغفرت کی دعاء کی‘ تقریب ہر لحاظ سے احسن اور تحسین کے قابل تھی‘جناب الیاس سبحانی کا کمال تھا کہ انہوں نے تقریب کو کچھ ایسے انداز میں ترتیب دیا کہ جیسے افضل مرزا کی زندگی میں توازن تھا ایسا ہی توازن اس تقریب میں بھی نظر آیا‘ تقریب میں حال ہی میں فتنہ خوارج کے ساتھ وطن کے دفاع کے لیے لڑتے ہوئے شہید ہونے والے پاک فوج کے افسر شہید میجر عدنان کے علاوہ جاوید شہزاد‘ ممتاز تاریخ ساز اخبار نویس سید سعود ساحر‘ اکمل مرزا‘ اظہر مرزا‘ صدیق الفاروق‘ مشاہد اللہ خان‘ آغاریاض الاسلام اور اصغر شاد اور دیگر مرحومین کے لیے مغفرت کی دعاء کی گئی‘ تقریب سے اقبال سبحانی‘ نیشنل پریس کلب کے سابق صدر فاروق فیصل خان‘ پی ایف یو جے دستور کے صدرمحمد نواز رضا‘ راولپنڈی کے سابق طالب عالم راہنماء سہیل مہدی‘ پیپلزپارٹی ورکرز کے راہنماء سید ابن رضوی‘ اسلامی جمعیت طلبہ راولپنڈی کے سابق ناظم ثاقب صدیقی‘ جماعت اسلامی اسلام آباد کے راہنماء راؤ محمد اختر‘ راولپنڈی کے سابق ایم پی اے حنیف چوہدری کے علاوہ لیا قت عباسی اور ڈاکٹر فرخ عطاء‘ حافظ نسیم خلیل اور دیگر نے اظہار خیال کیا‘ اقبال سبحانی نے کہا کہ افضل مرزا کی یاد میں تقریب کے لیے منتظیمن مبارک باد کے قابل ہیں‘ ابھی گزشتہ روز ہی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم وفات گزرا ہے کسی سطح پر سرکاری تقریب نہیں ہوئی ہم اپنے سیاسی اکابرین فاطمہ جناح کے علاوہ ملت کے محسن ڈاکٹر قدیر خان‘ اور ممتاز سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کو بھی فراموش کرتے جارہے ہیں فاروق فیصل خان نے کہا کہ افضل مرزا ایک متحرک اور جرائت مند سیاسی کارکن تھے جنہوں نے اپنے سیاسی نظریے سے مکمل وفا کی اور دوسروں کے سیاسی نظریات کا احترام بھی کیا‘ ان کے ساتھ گزرے ہوئے زندگی کے لمحات بہت یاد گار ہیں انہوں نے کہا کہ مرحوم پاکستان میں ایک ایسا ٹی وی چینل قائم کرنا چاہتے تھے جو عالم اسلام کے مفادات کا ترجمان ہو‘ لیکن انہیں اس ٹی وی چینل کے قیام کے لیے سیکورٹی کلیئرنس نہیں ملی تھی‘ جس کی وجہ یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوسکا‘ پیپلزپارٹی ورکرز کے راہنماء ابن رضوی نے کہا کہ راولپنڈی نے نہائت نمایاں سیاسی کارکن پیدا کیے ہیں جنہوں نے اس ملک میں بہترین سیاسی جدوجہد کی لیکن اب ملک میں سیاسی جدو جہد اور نظریاتی سیاست کا دور نہیں رہا‘ اب یہ ماضی کا حصہ بن گیا ہے انہوں نے کہا کہ ماضی میں تمام سیاسی جماعتوں سے وابستہ سیاسی کارکن اپنے اپنے نظریات پر قائم رہتے ہوئے مخالف سیاسی نکتہ نظر کے لیے بھی برداشت کا مادہ رکھتے تھے‘ سابق طالب علم راہنماء سہیل مہدی نے کہا کہ سیاسی روداری قائم کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش کرنا ہوگی اور یہ کام ڈائلاگ سے ہی ہوگا انہوں نے کہا کہ بات چیت ہی مسائل کا بہترین حل ہے اور ہمیں پاکستان میں یہ رواج ڈالنا ہوگا انہوں نے کہا کہ اب سرد جنگ کے بیانیے بھی ختم ہوگئے ہیں اس وقت دنیا میں نئے چیلنجز پیدا ہوگئے ہیں اور دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے‘ جماعت اسلامی اسلام آباد کے راہنماء راؤ محمد اختر نے کہا کہ افضل مرزا ایک جہاں دیدہ سیاسی کارکن تھے اور ان میں جرائت اور بہادری کے ساتھ سیاسی جدوجہد کرنے صلاحیت تھی‘ اور انہوں نے اپنی صلاحتیوں کا بھر پور اظہار کیا‘ نیشنل پریس کلب کے سابق صدر پی ایف یو جے دستور کے صدر محمد نواز رضا نے کہا کہ اب ملک میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاست نہیں ہے‘ سیاست میں اب نئی جہت پیدا ہوگئی ہے‘ افضل مرزا نے راولپنڈی میں دائیں بازو کی سیاست کی اور اس حلقے کے لوگوں کو متحد کرنے کی کوشش کرتے تھے‘ انہوں نے کہا کہ وہ ٹی وی چینل قائم کرکے اسے تعلیم کے فروغ کا بھی ذریعہ بنانا چاہتے تھے‘ ڈاکٹر فرخ عطاء نے کہا کہ افضل مرزا دائیں بازو کے حلقے کے تحفظ کے لیے آہنی دیوار تھے‘ ہمیں سیاسی کارکنوں کی جدوجہد کی تاریخ مرتب کرنی چاہیے‘ حافظ نسیم خلیل نے کہا کہ افضل مرزا کے ساتھ ہمارا ذاتی تعلق رہا‘ اس کے باوجود کہ ہمارے سیاسی نظریات ان سے نہیں ملتے تھے تاہم باہم عزت و احترام کا رشتہ تھا‘ انہوں نے کہا کہ1970 کے انتخابت وہ میری والدہ کو خود ووٹ دالنے کے لیے پولنگ اسٹیشن لے کر گئے جب کہ انہیں علم تھا کہ وہ ان کے مخالف سیاسی نظریات کی حامل خاتون ہیں اور ان کے سیاسی نظریے کوووٹ نہیں دیں گی لیکن اس کے باوجود وہ انہیں اپنی گاڑی میں اپنے ساتھ لے کر گئے اور واپس گھر بھی چھوڑ کر گئے‘ ماضی میں سیاسی رواداری کے ایسے بے مثال مظاہرے دیکھنے کو ملتے رہے ہیں‘ انہوں نے کہا کہ افضل مرزا واقعی مخلص دوست اور نظریاتی انسان تھے‘ پاکستان میڈیا تھنک ٹینک کے چیئرمین میاں منیر احمد نے اپنے تحریری پیغام میں کہا کہ افضل مرزاجنہوں نے ادب، صحافت اور سماجی اقدار کو یکجا کیا، اْن کی وفات کے بعد ان کے احباب مرحوم کے خیر خواہوں کو جمع کیا سب کا اتفاق تھا افضل مرزا کا خلاء شاید کبھی پْر نہیں ہو پائے گا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور اْن کے اہلِ خانہ کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی ہمت اور صبرِ جمیل عطاء کرے۔ آمین‘ مرحوم ایک ایسے پلیٹ فارم اور انجمن تھے جہاں اخلاقیات، خاندانی اقدار، سماجی رہنمائی اور تفریح یکجا نظر آتی تھی اْنہوں نے ہمیشہ سیاسی آزادیوں ایک ذمہ دار سیاسی اور سماجی زندگی کا نومنہ پیش کیا انہوں اپنی زندگی میں بھی ادب، صحافت اور سماجی اقدار کو یکجا کیا، اِن کی خدمات ہمارے لئے باعث ِ فخر ہیں آئین ِ پاکستان بلاتفریق تمام شہریوں کو مساوی حقوق کی ضمانت دیتا ہے ہم سب کو اس عزم کی تجدید کرنی چاہیے جس عہد کو افضل مرزا نے نبھایا معاشرے میں باہمی ہم آہنگی اور رواداری کی فضاء کو فروغ دیا‘ آج اگر وہ حیات ہوتے توبنگلادیش میں ڈھاکا یونیورسٹی اور جہانگیر نگر یونیورسٹی میں طلباٗء یونین انتخابات میں اسلامی چھاترو شبر کی بھاری اکثریت سے کامیابی کا جشن مناتے‘لیاقت روڈ سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ رہا ہے‘ راولپنڈی کے کالجز تعلیمی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہے ہیں ماہر تعلیم جناب ماسٹر محمد شریف کو کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے عبید الرحمن خواجہ‘ دولت خان، محمد اسحاق، محمد مختار‘ پروفیسر وثیق صاحب کو کیسے نہ یاد رکھا جائے‘ راجہ ظہور بھی یہی کے تھے‘ یہ شخصیات اپنے افکار کی بناء پر آج بھی اس شہر کے دل میں زندہ ہیں‘ اسی طرح سیاسی کارکنوں میں‘ شیخ رشید احمد‘ عبدالرشید شیخ‘ سابق ایم این اے نذر حسین کیانی اورپروفیسر راشد حسن رانا بھی سب یاد اور یاد رہیں گے بریگیڈئیر طارق محمود المعروف‘ ٹی ایم کے خاندان کے افراد‘ پرویز رشید، مشاہد اللہ خان‘ اشرف سینڈو کے صاحب ذادے جنرل جاوید اورعبد الودود قریشی اور جیسے دیگر نام سب یاد ہیں‘ تقریب میں ناصر مغل‘ کمال پاشا‘ سینیئر صحافی طارق محمود سمیر‘ آر آئی یو جے دستور کے راجہ خاور نواز‘ اے آر ساگر‘ راجا محفوظ‘ طیب شیخ‘ ملک ظہیر عباس‘ افتخار مرزا‘ محبت خان‘ یعقوب ملک‘ ملک اعظم‘ الیاس سبحانی‘ ناظم الدین ناظم اور دیگر شریک ہوئے