بھارت نے کبھی بھی پاکستان کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا

تحریر: سردار عبدالخالق وصی

پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی تاریخ کشیدگی، جنگوں اور باہمی بداعتمادی سے عبارت ہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد سے آج تک بھارت نے کبھی بھی پاکستان کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا۔ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ، پانی کے مسائل پر دباؤ، افغانستان کے راستے مداخلت اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نے اس تعلق کو مزید پیچیدہ بنایا۔ موجودہ دور میں بھارت نے پاکستان کے خلاف ایک منظم اور خفیہ حکمت عملی اپنائی ہے، جسے عسکری اصطلاح میں پراکسی جنگ کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ محاذ پر نہیں بلکہ پاکستان کے اندر دہشت گرد گروہوں کی مالی و عسکری معاونت، علیحدگی پسند تحریکوں کو ہوا دینے، فرقہ واریت کو فروغ دینے اور میڈیا پروپیگنڈے کے ذریعے لڑی جا رہی ہے۔

پاکستان نے بارہا دنیا کو آگاہ کیا ہے کہ بھارتی خفیہ ادارہ ’’را‘‘ اس پراکسی جنگ کا سب سے بڑا محرک ہے۔ دہشت گردوں کی مالی معاونت، اسلحہ و بارود کی ترسیل اور مقامی گروہوں کو اکسانا بھارت کے بنیادی حربے ہیں۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور اس کے اعترافی بیانات اس بات کے ٹھوس ثبوت ہیں کہ بھارت پاکستان کو اندر سے غیر مستحکم کرنے کے لیے براہِ راست سرگرم ہے۔

اس جنگ نے پاکستان کو جانی اور مالی دونوں اعتبار سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف دو دہائیوں پر محیط جنگ میں پاکستان کے 90 ہزار سے زائد شہری اور سیکیورٹی اہلکار شہید یا زخمی ہوئے، جبکہ ملکی معیشت کو 150 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا۔ آج ملک کو جس معاشی بحران، مہنگائی اور غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے، اس کی جڑیں اسی پراکسی وار میں پیوست ہیں۔

اسی پیچیدہ منظرنامے میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی عسکری قیادت نے ایک فیصلہ کن موڑ فراہم کیا۔ انہوں نے ذمہ داریاں سنبھالتے ہی واضح کیا کہ پاکستان کسی بھی صورت دہشت گردوں اور فتنۂ خوارج کو برداشت نہیں کرے گا۔ اپنے انٹیلی جنس پس منظر کی بدولت وہ دشمن کی چالوں اور نیٹ ورکس سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کی قیادت میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بڑے آپریشنز کیے گئے، جن میں دہشت گرد مارے گئے اور بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد ہوا۔

رواں سال 9 اور 10 ستمبر 2025 کو آئی ایس پی آر کی رپورٹ کے مطابق، خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں تین الگ الگ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کے دوران مجموعی طور پر 19 دہشت گرد مارے گئے۔ یہ دہشت گرد بھارتی پراکسی نیٹ ورک “فتنۂ خوارج” سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے قبضے سے اسلحہ و گولہ بارود بھی برآمد ہوا۔

پاک فوج نے اپنی کارروائیوں کو محض فوجی آپریشنز تک محدود نہیں رکھا بلکہ انہیں ایک نظریاتی جہاد کے طور پر پیش کیا، کیونکہ دہشت گرد محض گروہ نہیں بلکہ وہ ذہنیت ہیں جو اسلام کے نام پر فساد پھیلاتی ہے۔ یہ جہاد فتنۂ خوارج کے خلاف جاری ہے تاکہ واضح ہو کہ یہ جنگ صرف دشمن کے ہتھیاروں کے خلاف نہیں بلکہ اس گمراہ فکر کے خلاف ہے جو ریاست کو کمزور کرنے کے لیے معصوم ذہنوں کو استعمال کرتی ہے۔

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر بارہا کہتے ہیں کہ دہشت گردی کا خاتمہ صرف ہتھیار سے ممکن نہیں۔ نوجوانوں کو تعلیم، روزگار اور مثبت مواقع فراہم کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا آپریشنز کرنا۔ اس لیے ریاستی ادارے معاشرتی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے اقدامات کر رہے ہیں، اور یہ جنگ پوری قوم کی جنگ ہے، جس میں ہر شہری، سول سوسائٹی، میڈیا، عدلیہ، مذہبی اور تعلیمی حلقے برابر کے شریک ہیں۔

پاکستان میں ایک تجربہ کار سیاسی قیادت بھی موجود ہے جو عسکری قیادت کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ قائد محمد نواز شریف ملک کی سیاسی استقامت کے مرکز ہیں، وزیرِاعظم شہباز شریف اپنی محنت اور انتظامی صلاحیت کے ذریعے معیشت کو مستحکم کرنے میں سرگرم ہیں، نائب وزیرِاعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار بین الاقوامی محاذ پر پاکستان کے موقف کو اجاگر کر رہے ہیں، اور وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال ترقی و استحکام کے منصوبوں پر توجہ دے رہے ہیں۔ اسی ہم آہنگی نے قومی اتحاد کو مضبوط بنایا ہے جو پاکستان کی سب سے بڑی طاقت ہے۔

یہ جنگ محض فوج یا حکومت کی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی بقا کی جنگ ہے، اور ہر سازش، ہر دہشت گردانہ حملہ اور ہر انتہا پسندانہ سوچ دراصل ہمارے اجتماعی مستقبل پر حملہ ہے۔ اس کا مقابلہ صرف متحد ہو کر کیا جا سکتا ہے۔

گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے عوام کئی دہائیوں سے سخت و نرم حالات کا سامنا کر چکے ہیں اور اپنی قومی ذمہ داریوں سے بدرجہ اتم آگاہ ہیں۔ وہ کسی ایسی مہم کا حصہ نہیں بنیں گے جس سے دشمن کو فائدہ پہنچے، لیکن حکومت کو بھی عوام کو اشتعال دلانے سے گریز کرنا ہوگا۔ آزاد جموں و کشمیر میں جناب وزیرِاعظم چوہدری انوار الحق کی قیادت میں مقامی حکومت اپنی رٹ برقرار رکھنے اور عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے بظاہر سرگرم ہیں۔ جناب وزیرِاعظم جب رٹ قائم کرنے میں دیر کرتے ہیں اور پانی سر سے گزرنے لگتا ہے تو قومی اداروں کو ملوث کر کے خود کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں، اور اپنی پارسائی و پاکبازی کے دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن تلخ حقیقت یہی ہے کہ ان حالات کے محرک بھی وہی ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تصادم کے بجائے مفاہمت، مقابلے کے بجائے مکالمے کا راستہ اختیار کیا جائے تاکہ عوام اور حکومت کے درمیان اعتماد قائم رہے اور کوئی جانی یا مالی نقصان نہ ہو۔ گلگت میں سپریم کونسل اور آزاد جموں وکشمیر میں ایکشن کمیٹی کے زمہ دار بھی اپنے حق احتجاج کو ضرور استعمال کریں لیکن قومی سلامتی اور عوام کے حقوق کے حصول کے نام پر عوام کے حقوق مسدود نہ کریں۔ سیاسی جماعتیں اور ایکشن کمیٹی دو متحارب فریقین نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ممد و معاون ہیں تلخی اظہار سے اجتناب تہزیب و تمدن کا بنیادی تقاضا ہے۔

گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی موجودہ حساسیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قومی امن و استحکام کسی بھی صورت میں جان و مال کی قربانی پر منحصر نہیں ہو سکتا۔ زمہ دار ادارے ایسے رویے اپنائیں جو نرم بھی ہوں اور مؤثر بھی، تاکہ کسی بھی جانی یا مالی نقصان کے امکانات کم ہوں۔ یہی وہ راستہ ہے جو علاقائی امن کو برقرار رکھے گا، بیرونی سازشوں کو ناکام بنائے گا اور ایک متحد، ذمہ دار اور بیدار قوم کی پہچان قائم کرے گا۔ اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔