سیلابوں نے ملک کی معاشی بقا کو لاحق خطرات کو عیاں کر دیا

۔ 2010ء، 2022ء اور اب 2025ء کے تباہ کن سیلابوں نے ملک کی معاشی بقا کو لاحق خطرات کو عیاں کر دیا ہے۔

پورے کے پورے اضلاع زیر آب آچکے ہیں، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اور اربوں کا نقصان ہوا۔ سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ اس کا الزام ‘دریاؤں کی بے رحمی’ یا ‘آب و ہوا کی تبدیلی’ پر ڈال دیا گیا ہے جبکہ حقیقت عیاں ہے کہ اصل مجرم قوم کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے بنائے گئے اداروں کی بے حسی، بدعنوانی اور نااہلی ہے۔

دنیا بھر میں یونیورسٹیز اور تحقیقی ادارے ’حل کے کلینک‘ (clinic of solutions) کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف مسائل کا مطالعہ کرتے ہیں بلکہ ان کی تشخیص، اختراعات اور علاج بھی تجویز کرتے ہیں۔ وہ سیلاب کی پیش گوئی کرتے ہیں، نظام آب پاشی کو دوبارہ ڈیزائن کرتے ہیں، پانی کے تنازعات میں ثالثی کرتے ہیں جبکہ حکومتوں کی تحقیقاتی شواہد کے ساتھ رہنمائی بھی کرتے ہیں۔

نیدرلینڈز TU Delft اور Deltares کی مدد سے زمین پر سب سے زیادہ سیلاب سے بچنے والی قوم میں تبدیل ہوا جس نے بنگلہ دیش، ویتنام اور یہاں تک کہ سمندری طوفان کترینہ کے بعد نیو اورلینز کو اپنے ماڈلز برآمد کیے۔

اسرائیل کی یونیورسٹیز نے ڈرپ ایری گیشن کا آغاز کیا جس سے ریگستان سبزہ زار بنتے ہیں۔ بھارت کی IIT روڑکی (شریک مصنف انجینئر ارشد نے جس کی فضیلت کا مشاہدہ کرنے کے لیے اس کا دورہ بھی کیا تھا)، IIT کان پور اور IIT کھڑگ پور نے انجینئرز کی نسلوں کو تربیت دی ہے جنہوں نے ڈیموں کو ڈیزائن کیا، آب پاشی کی تنظیم نو کی اور زمینی پانی کا انتظام کیا۔

ڈرپ ایری گیشن کے نظام سے بھارت سمیت کئی ممالک مستفید ہورہے ہیں
آکسفورڈ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل واٹر انسٹی ٹیوٹ اور کولوراڈو یونیورسٹی جیسے اداروں نے آبی سائنس کو سفارت کاری میں بدل دیا جس سے دریائے نیل، میکونگ اور دریائے کولوراڈو کے تنازعات میں ثالثی میں مدد ملی۔ یہ یونیورسٹیز شفا بخش ہیں، علم کو تحفظ اور امن میں بدلتی ہیں۔

البتہ پاکستان کی کہانی منفرد اور تکلیف دہ ہے۔ 133 سے زائد انجینئرنگ یونیورسٹیز اور خصوصی اداروں جیسے کہ لاہور میں سینٹر آف ایکسی لینس ان واٹر ریسورسز انجینئرنگ، مہران یونیورسٹی میں پاک-امریکا پانی کی جدید تحقیق و مطالعے کے سینٹر (USA-Pakistan Center for Advanced Studies in Water) اور فیصل آباد میں زرعی یونیورسٹی میں واٹر مینجمنٹ ریسرچ سینٹر جیسے خصوصی ادارے ہونے کے باوجود ہمارے ملک کے پاس دکھانے کے لیے کوئی قابل قدر تحقیق نہیں ہے۔

یہ ادارے جن کا قیام عملی تحقیق کا دھڑکتا دل ہونا تھا، پانی کی حفاظت کے محافظ کے بجائے ناکامی کی یادگار بن چکے ہیں۔ عالیشان عمارتیں، جدید ترین لیبارٹریز، غیرملکی تعلیم یافتہ فیکلٹی اور بھاری تنخواہیں مگر کارکردگی، وہی چند خاک آلودہ اکیڈمک پیپرز جن کا زمینی حقاق سے کچھ زیادہ تعلق نہیں اور ان پر بحث و تنقید کا تو ذکر ہی کیا۔

بیرون ملک یونیورسٹیز نے ایسے ماڈل اور پالیسیز تیار کیں جن سے جانیں بچیں، پاکستان کے سینٹر آف ایکسیلنس نصف صدی کے بعد بھی سیلابی میدانوں کی حد بندی تک نہیں کرسکے۔ یہ بلاشبہ تباہ کن ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

لاہور کے قریب دریائے راوی کے کنارے رہائشی سوسائٹیز بنائی گئیں۔ دریائے سوات کے کناروں پر غیر قانونی ہوٹلز کی تعداد میں ناقابلِ یقین اضافہ دیکھا گیا۔ جب آبی ریلے پہنچے تو غیر زون شدہ پشتے کاغذ کی دیواروں کی طرح منہدم ہوگئے۔ سال بہ سال سیلاب لوٹ آئے اور سال بہ سال کچھ نہیں بدلا کیونکہ ایسی آفات کو روکنے کے لیے بنائے گئے ادارے خاموش رہے۔

دریاؤں کے راستے میں رہائشی سوسائٹیز اور ہوٹلز بنانے کی اجازت دے کر آفات کو راستہ دیا گیا
اس خلا میں موقع پرستوں نے قدم رکھا۔ ایک دہائی سے زائد عرصے تک پاکستان کی آب و ہوا کی بحث کو موسمیاتی تبدیلی کے وزیر اور خود ساختہ ماہرین کے ایک ہجوم نے ہائی جیک کر لیا جنہوں نے بڑے بڑے دعووں کے ساتھ دنیا کو گمراہ کیا کہ گلیشیئر ‘پگھل رہے ہیں’۔ یہ سائنس کی تحریف تھی۔ حقیقت کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔

‘قراقرم بے ضابطگی‘، ایک ایسی اصطلاح ہے جو 1980ء کی دہائی میں ماہر جغرافیہ اور عظیم گلیشیالوجسٹ کینتھ ہیوٹ نے وضع کی تھی، قراقرم کے اونچائی والے گلیشیئرز کے حیرت انگیز استحکام اور بعض صورتوں میں نمو کی طرف اشارہ کرتی ہے جو کہ پسپائی کے عالمی طرز کے بالکل برعکس ہے۔ ہیوٹ کے ابتدائی مطالعات نے ممکنہ وضاحت کے طور پر تھرمل شفٹوں اور اونچائی کے اثرات کی طرف اشارہ کیا۔

سائنس وہیں نہیں رکی۔ اپنے کام کو آگے بڑھاتے ہوئے Fuming Xie نے 2023ء کے ایک مطالعہ کی قیادت کی جس میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ گرمی کی شدت کے ساتھ اب یہ بےضابطگی کمزور پڑ رہی ہے۔ ڈینیئل فارینوٹی، والٹر ایمرزیل، ڈنکن جے کوئنسی اور اموری ڈیہیک سمیت سائنس دانوں نے اپنے تاریخی مطالعہ ’قراقرم گلیشیئر کی بے ضابطگی کے مظاہر اور میکانزم‘ کے ذریعے اس میدان میں تحقیق کو آگے بڑھایا۔

پاکستان میں انجینئر ارشد ایچ عباسی جوکہ تحریر کے شریک مصنف ہیں، نے گلیشیئر ہائیڈرولوجی، ہائیڈرو پاور اور واٹر مینجمنٹ کا مطالعہ کرتے ہوئے برسوں گزارے۔ انہوں نے پالیسی سازوں کو سائنس کی غلط تشریح کے خلاف خبردار کیا۔ پھر بھی قہقہوں کے شور نے ان آوازوں کو غرق کردیا۔

وزرا اور نام نہاد ماہرین نے موسمیاتی تبدیلی کو ذاتی مفاد کی صنعت میں تبدیل کر دیا، سائنس کی اہمیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، عطیہ دہندگان اور میڈیا ایئر ٹائم کی مدد سے خودنمائی کا عمل جاری رکھا۔ بغیر سیاق و سباق کے گلیشیئرز پگھلنے کا منتر دہرا کر انہوں نے تحقیق اور ان لاکھوں لوگوں کو دھوکا دیا جن کی بقا کا انحصار سندھ طاس پر ہے۔

بلاشبہ گلیشیئرز پگھل رہے ہیں لیکن آفات کا باعث بننے والی اداروں کی نااہلی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا
ریسرچ گورننس کے زوال کا پتا ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی کارکردگی سے لگایا جا سکتا ہے۔ واضح کارکردگی کے اشاریوں کے ساتھ لاگو تحقیق کو لازمی قرار دینے کے بجائے ایچ ای سی نے ملک کے مستقبل کو غیر متعلقہ میٹرکس کے تحت دفن کردیا۔ ترقیوں اور وقار کا تعلق نام نہاد امپیکٹ فیکٹر جرنلز میں شائع ہونے سے تھا اور وہ بھی اکثر ایسے موضوعات پر جو پاکستان کے بحرانوں سے مکمل طور پر غیرمتعلقہ تھے۔

سیلاب کی پیش گوئی کرنے والے ماڈلز کو ڈیزائن کرنے، ڈیمز کی ضرورت، آبپاشی کی کارکردگی کو بہتر بنانے یا زیرِزمین پانی کو پائیدار طریقے سے منظم کرنے کی کوئی ضرورت تک محسوس نہیں کی گئی تھی۔ اس سے بھی بدتر 2011ء کے سائنسی آلات کی بحالی جیسے عجیب و غریب منصوبوں نے عوامی فنڈز حاصل کیے اور اس کے پرنسپل محقق کو وائس چانسلر کے عہدے تک پہنچا دیا۔

کس عقلی اور حقیقی علمی دنیا میں دیکھ بھال کی رپورٹس بطور’ تحقیق’ سند پاتی ہیں جبکہ لاکھوں افراد اور مویشی سیلاب میں ڈوب رہے ہوں؟

اس کے علاوہ بیرون ملک یونیورسٹیز نے حل تیار کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ یونیورسٹی آف کیپ ٹاؤن نے ڈیمانڈ منیجمنٹ کی حکمت عملیوں سے شہر کو ڈے زیرو (Day Zero) پانی کے بحران سے بچنے میں مدد کی۔ ETH زیورخ نے موسمیاتی ماڈلز کو یورپ کی آبی پالیسیز میں ضم کیا۔

چین کی ژنہوا یونیورسٹی نے شہری سیلاب سے نمٹنے کے لیے اسپنج شہروں (sopange cities) کا آغاز کیا۔ یہ ادارے بیمار نظام پانی کے ڈاکٹروں کی طرح کام کرتے تھے۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں نے مرض اور مریض دونوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا، ملک کی آبی حفاظت نااہل سیاستدانوں اور خود فروغ کے حامل نام نہاد ماہرین پر چھوڑ دی۔

چین نے اسپنج شہروں کا نظام متعارف کروایا جو شہری سیلاب سے نمٹنے میں مؤثر ہے—تصویر: آرتھ او آر جی
اس تباہی کی قیمت تباہ کن ہے۔ پاکستان کی فی کس پانی کی دستیابی 750 کیوبک میٹر سالانہ سے نیچے گر چکی ہے جو اسے مکمل قلت (ورلڈ بینک) کی جانب گھسیٹ رہی ہے۔ اس کے باوجود زراعت جو 90 فیصد سے زیادہ پانی استعمال کرتی ہے، اب بھی مضر سیلابی آب پاشی پر انحصار کرتی ہے۔

پانی کی ضرورت والی فصلوں کا غلبہ ہے جبکہ پیداوار مایوس کن ہے۔ ذخیرہ کرنے کی گنجائش خشک ممالک کے لیے تجویز کردہ 120 دنوں کے مقابلے میں بمشکل 30 دن ہے۔

ہر مون سون میں طوفان سمندر میں غائب ہونے سے پہلے زندگیوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ ہر خشک موسم میں ملک پیاسا رہتا ہے۔ زمینی پانی جو کبھی غریب کسانوں کی پناہ گاہ ہوا کرتا تھا، اسے لاپروائی سے لوٹا گیا ہے۔ انڈس بیسن کا پانی جو دنیا میں سب سے زیادہ دباؤ کا شکار ہے، ری چارج سے زیادہ تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ جو بچ جاتا ہے وہ صنعتی فضلہ اور زرعی بہاؤ کے زہر کی نذر ہو جاتا ہے۔

شہروں میں بچے آلودہ پانی پیتے ہیں جبکہ کسان جس سے آب پاشی کرتے ہیں وہ نمکین پانی ہوتا ہے جوکہ مٹی کی زرخیزی کا قاتل ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کی یونیورسٹیز نے زیرِزمین پانی کی نگرانی کا کوئی قابل اعتبار نظام یا اس کے پائیدار استعمال کے لیے کوئی قومی پالیسی تجویز نہیں کی ہے۔

سندھ میں کاشتکار آلودہ پانی میں فصلیں اُگانے پر مجبور ہیں—تصویر: وائٹ اسٹار
جی ہاں، موسمیاتی تبدیلی حقیقی ہے اور پاکستان بلاشبہ اس کا شکار ہے۔ لیکن اپنی ناکامیوں خاص طور پر فضائی آلودگی پر قابو پانے میں ناکامی کا سامنا کرنے کے بجائے موسمیاتی تبدیلی کو بے عملی اور بدانتظامی کا بہانہ بنا لیا گیا ہے۔ آفات کا مقابلہ فہم و فراست سے نہ کرنا اصل ناکامی ہے۔

اگرچہ مون سون تبدیل ہو رہا ہے، انتہائی شدت اختیار کر رہا ہے، نچلے حصوں میں گلیشیئرز پیچھے ہٹ رہے ہیں لیکن قدرتی جھٹکے صرف اس لیے آفات بن جاتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس ان کا مقابلہ کرنے کا نظام موجود نہیں۔

دیگر مقامات پر، یونیورسٹیز نے خطرے کے نقشے، سیلاب کی پیش گوئی کرنے والے ماڈل اور موافقت پذیر بنیادی ڈھانچے بنائے ہیں۔ پاکستان میں سیلاب گھات کی طرح آتے ہیں کیونکہ تحفظ کے ذمہ دار ادارے اپنا کام کرنے میں ناکام ہیں۔

حدود پار آبی انتظام (transboundary water management) میں غفلت سب سے زیادہ تباہ کن ہے۔ 1960ء میں طے پانے والا سندھ طاس معاہدہ بھارت اور پاکستان کے درمیان امن کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ پھر بھی آج لاپروا آوازیں اس کی معطلی کا مطالبہ کرتی ہیں گویا معاہدوں کو پھاڑ دینے سے پاکستان کا پانی کا بحران حل ہو سکتا ہے۔

کہاں ہیں وہ علما جو تحقیق اور سفارت کاری کے ساتھ اس بحث میں رہنمائی کریں؟ ہائیڈرولوجیکل ماڈل کی حکمت عملی کہاں ہیں؟ پاکستان میں علمی وظائف کی بجائے بلند و بانگ کوکھلے دعوے کرنے والے اور انتشار پھیلانے والے افراد ملک کی بقا کا جوا کھیل رہے ہیں۔

اس وقت جب پاکستان اپنے بدترین سیلاب میں ڈوب رہا ہے لاکھوں افراد بے گھر ہیں اور زندگیوں کا توازن بگڑ رہا ہے، قوم کو سائنسی وضاحت، علم اور حل کی اشد ضرورت ہے۔ پھر بھی اس کے بجائے جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ حکمت کے نام پر انتشار پھیلانا ہے۔ یہ بحث شور مچانے والے مناظروں میں سمٹ چکی ہے جن میں ڈیموں پر شدید جھگڑے، بیراجوں اور نہروں کے بارے میں بنجر دلائل، لاپروائی کہ 1960ء کا سندھ آبی معاہدہ ایک تاریخی غلطی تھی، شامل ہیں۔

استدلال اور عقل کے اس خلا میں نئے سفاک اور قہقہے لگانے والے خوشامدی اور نیم حکیم آگے بڑھے ہیں جو علم پر نہیں بلکہ کنفیوژن پر پروان چڑھ رہے ہیں، بیان بازی کو پالیسی بنا کر پیش کر رہے ہیں اور زندگی کو برقرار رکھنے والے بنیادی آبی معاہدے کے خلاف شکوک و شبہات پھیلا رہے ہیں۔

سب سے افسوسناک روش دریاؤں کی نہیں بلکہ نام نہاد واٹر ایکسیلنس سینٹرز اور شعبہ انجینئرنگ کی ہے جنہیں قوم کی ڈھال بننا چاہیے تھا۔ وہ ادارے جنہوں نے قوم کے معمار ہونے کا وعدہ کیا تھا، وہ اپنا فرض ترک کر چکے ہیں۔ وہ ایک ایسا خلا چھوڑ گئے ہیں جہاں تحقیق، شواہد اور حل کا نام و نشان نہیں ہے۔ اس خاموشی میں موقع پرستوں یعنی کچھ این جی اوز، خود ساختہ صحافی اور جعلی ماہرین خود کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن وہ میڈیا میں صرف انتشار پھیلاتے ہیں۔ وہ ہر سیلاب کو تھیٹر، ہر ڈیم کو سازش میں، ہر معاہدے کو اختلاف کے ہتھیار میں بدل دیتے ہیں۔

عالمی برادری کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کا آبی سانحہ ناگزیر ہے اور نہ اس کا مقدر۔۔۔ بلاشبہ یہ انسان کی غفلت سے جنم لینے والا المیہ ہے۔ یہ تحریر عالمی ادروں سے خیرات کی درخواست نہیں ہے بلکہ یہ احتساب کا مطالبہ ہے۔

عطیہ دہندگان کو پاکستان کے واٹر ایکسی لینس سینٹرز اور 2000ء سے 2025ء تک ہائر ایجوکیشن کمیشن میں خدمات انجام دینے والے ہر اہلکار کی کارکردگی کے آڈٹ کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ اس طرح کے حساب کتاب کے بغیر کچھ نہیں بدلے گا۔ پاکستان کی یہی حالت رہے گی جو ہر سیلاب میں ڈوب جائے، قحط سالی میں پیاسا، معاہدوں پر جھگڑے اور خاموشی سے اپنے دریاؤں کو ضائع کرتا رہے۔

پاکستان کے پانی کے بحران کا اصل المیہ یہ نہیں کہ فطرت سخت گیر ہے بلکہ یہ ہے کہ علم کی روشنی کو گُل کر دیا گیا ہے اور صاحب علم کی آوازوں کو خاموش کر دیا گیا ہے۔ جن یونیورسٹیز کو اس بحران کے حل کا مسیحا ہونا چاہیے تھا وہ اس کی ساتھی بن چکی ہیں۔

انتہائی ظلم کا مقام ہے کہ وطن عزیز میں سیاستدانوں اور موقع پرستوں نے قابل انجینئرز، ماہرین اقتصادیات اور سائنسدانوں کی جگہ لے لی ہے۔ جب تک پاکستان دنیا سے سبق نہیں سیکھتا اور اس کے ادارے حقیقی سرپرست کے طور پر کام نہیں کرتے، تب تک سندھ وہی فیصلہ لکھتا رہے گا جو اس نے ساڑھے 5 ہزار سال پہلے ہڑپہ اور موہن جو دڑو کے لیے لکھا تھا۔

یہاں کی تہذیب دریاؤں کی وجہ سے ختم نہیں ہوگی۔ یہ خاموشی، نااہلی اور خیانت کی وجہ سے ختم ہو جائے گا۔