تارکینِ وطن کی سیاست

اسلام آباد—–

ہندو توا کی نظریاتی سوچ کے بڑھتے ہوئے اثرات اور اس کے پھیلتے ہوئے عالمی نیٹ ورکس نہ صرف تارکینِ وطن کی سیاست کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ دنیا بھر میں اسلاموفوبیا میں خطرناک اضافہ بھی کر رہے ہیں۔ یہ رجحان عالمی امن، بقائے باہمی اور کثرتیت کے لیے سنگین چیلنجز پیدا کر رہا ہے اور اس کے تفرقہ انگیز بیانیے کو روکنے کے لیے علمی، سفارتی اور پالیسی سطح پر فوری اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ نکات انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز) آئی پی ایس (اسلام آباد کے زیرِ اہتمام منعقدہ سیمینار ” ہندو توا: نیٹ ورکس، ڈائسپورا سیاست اور اسلاموفوبیا “ میں زیرِ غور آئے، جس میں محققین، پالیسی سازوں، سفارت کاروں اور دیگر ماہرین نے شرکت کی۔ سیمینار میں ڈاکٹر مجیب افضل (ایسوسی ایٹ پروفیسر، قائداعظم یونیورسٹی)، ڈاکٹر خرم اقبال (اکیڈمک و پالیسی تجزیہ کار)، سفیر (ر) سہیل محمود (ڈائریکٹر جنرل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد)، اور خالد رحمان (چیئرمین آئی پی ایس) نے اظہارِ خیال کیا۔ ابتدائی کلمات میں خالد رحمان نے اس بات کی نشاندہی کی کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) جس نے ہندو توا کے نظریے کو فروغ دیا اور ادارہ جاتی شکل دی، نے 27 ستمبر کو اپنی صدی مکمل کی۔ انہوں نے اس امر پر روشنی ڈالی کہ آر ایس ایس جیسی تنظیمیں ثقافتی اداروں کے نام پر نہ صرف بھارت کے اندر بلکہ بھارتی تارکینِ وطن میں بھی نفرت پر مبنی سیاست کو آگے بڑھانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت کے اندر ہندو توا کو مضبوط کرنے والے عوامل میں تنظیمی ڈسپلن، گراس روٹس نیٹ ورک، بی جے پی کے ذریعے سیاسی اثر و رسوخ، ذیلی تنظیموں میں وسعت، سماجی خدمت، تعلیمی و ثقافتی بیانیے کی تشکیل، اور سب سے بڑھ کر اسلاموفوبیا پر مبنی عالمی ماحول شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندو توا مغرب میں اسلاموفوبیا کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے تاکہ اپنے مخالف مسلم ایجنڈے کو آگے بڑھا سکے۔ ڈاکٹر مجیب افضل نے ہندو توا کے ساختیاتی اور سیاسی پہلوؤں کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ زیادہ سیاسی مظہر ہے نہ کہ مذہبی۔ انہوں نے بھارت کے اندر اس کی حکمتِ عملیوں اور بیرون ملک اس کے پھیلاؤ پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندو توا نے اپنی شناخت مسلمانوں کی مخالفت پر استوار کی ہے اور یہ اسلاموفوبیا کو فروغ دینے کے لیے اپنے عالمی نظریاتی روابط استعمال کرتا ہے۔ ڈاکٹر خرم اقبال نے ان رجحانات کے سکیورٹی اور معاشرتی اثرات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہندو توا کے بیانیے اسلاموفوبیا اور امتیازی پالیسیوں کو ہوا دیتے ہیں۔ ان کے مطابق مغرب میں مقیم ہندو توا ڈائسپورا بھارت میں ہندو توا سرگرمیوں کو مالی مدد فراہم کرتا ہے اور اس نظریے کو دنیا بھر میں پھیلاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک میں یہ ڈائسپورا بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیے لابنگ کرتا ہے۔ تاہم انہوں نے اس امر کی نشاندہی کی کہ مغرب میں ہندو توا کو مشکلات پیش آ سکتی ہیں کیونکہ وہاں نسلی شناخت اکثر مذہبی وابستگی سے زیادہ طاقتور ثابت ہوتی ہے، اور بھارت کا ’وشو گرو‘ بننے کا دعویٰ میزبان معاشروں کو قابلِ قبول نہیں۔ انہوں نے اکھنڈ بھارت اور گریٹر اسرائیل کے نظریات میں مماثلت کی نشاندہی کرتے ہوئے پاک-سعودی دفاعی معاہدے کو ان خطرات کے خلاف بڑھتی ہوئی آگاہی کی مثال قرار دیا۔ اختتامی کلمات میں سفیر سہیل محمود نے خبردار کیا کہ ہندو توا اور اس کے عالمی نیٹ ورکس مسلمانوں، بالخصوص پاکستانی تارکینِ وطن کے لیے سنگین خطرات رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہندو توا اور اسلاموفوبیا کے مقابلے کے لیے مسلسل مکالمے اور عالمی یکجہتی کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ خود بہت سے ہندو بھی ان انتہا پسند نظریات کو رد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امن اور استحکام کے لیے تکثیریت، شمولیت اور انصاف ناگزیر ہیں، لیکن ہندو توا گروہ اسلاموفوبیا کو منظم طریقے سے ہوا دے رہے ہیں۔ انہوں نے بی جے پی/آر ایس ایس کی جانب سے غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کی حمایت کو اس کے خطرناک گٹھ جوڑ کی ایک مثال قرار دیا۔ مزید برآں، انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ بھارت سے باہر بھی ہندو توا نیٹ ورکس اپنے ایجنڈے کو عالمی سکیورٹی بیانیوں کے ساتھ جوڑتے ہیں اور پاکستان کو دہشت گردی کا مبینہ مرکز قرار دیتے ہیں۔ سیمینار میں توجہ دلائی گئی کہ ہندو توا کے بڑھتے ہوئے اثرات صرف ایک نظریاتی مسئلہ نہیں بلکہ دنیا کے لیے، خصوصاً بھارتی غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر اور مسلم ڈائسپورا کے لیے سنگین مضمرات رکھتے ہیں۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور عالمی پالیسی ساز حلقوں کو ہندو توا کے پھیلتے ہوئے عالمی پہلوؤں کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ اسلاموفوبیا کو صرف معاشرتی تعصب نہیں بلکہ ہندو توا کو ایک پرتشدد انتہا پسند نظریہ قرار دے کر مغرب کو اس کی حقیقت سمجھانے کی ضرورت ہے۔