کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی اور مہاجرین کی نشستیں ایک منصفانہ تجزیہ

کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی اور مہاجرین کی نشستیں ایک منصفانہ تجزیہ

تحریر : سید جاوید الرحمٰن ترابی
کشمیر کی نمائندگی، مہاجر نشستیں اور اقوامِ متحدہ کی قراردادیں۔
ایک تجزیاتی و تحقیقی مضمون
تمہید
مسئلہ کشمیر برصغیر کی تقسیم سے لے کر آج تک ایک نہ ختم ہونے والا تنازعہ ہے۔ اقوامِ متحدہ نے اس مسئلے کو باضابطہ طور پر متنازعہ تسلیم کیا ہے اور کشمیری عوام کو حقِ خود ارادیت دینے کا عہد کے طور پر رکھی گئی ہیں اسی پس منظر میں آزاد جموں و کشمیر کی اسمبلی میں مہاجرین کی نشستیں — ایک تاریخی اور بین الاقوامی علامت ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی قراردادیں — تاریخی پس منظر
جب 1947–48 میں کشمیر پر پہلا تنازعہ شروع ہوا تو بھارت خود یہ مسئلہ اقوامِ متحدہ میں لے کر گیا۔ اس کے بعد سلامتی کونسل نے کئی قراردادیں منظور کیں، جن میں سب سے اہم یہ ہیں:
1. قرار داد 38 (17 جنوری 1948) — بھارت اور پاکستان دونوں کو جنگ بندی اور امن قائم کرنے کا کہا گیا۔
2. قرار داد 39 (20 جنوری 1948) — کمیشن برائے ہندوستان و پاکستان (UNCIP) کے قیام کی منظوری دی گئی۔
3. قرار داد 47 (21 اپریل 1948) — اس میں واضح طور پر کہا گیا کہ ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ایک آزادانہ اور غیر جانبدار رائے شماری (plebiscite) کے ذریعے ہوگا۔
4. بعد میں بھی 1950، 1951، 1957 میں متعدد قراردادوں میں یہ اعادہ کیا گیا کہ کشمیری عوام کو رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیا جائے۔ اگرچہ کہ آج تک ان قراردادوں پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔لیکن یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک بین الاقوامی تنازعہ ہے۔ ان قراردادوں پر عمل درآمد نہ ہونے کے باوجود ان کی روح زندہ ہے۔ مہاجر نشستیں اس روح کو زندہ رکھنے کی ایک آئینی علامت ہیں۔ اور یہ اس حقیقت کی نمائندگی کرتی ہیں کہ کشمیر کے متعدد اہلِ وطن اپنے گھروں سے بے دخل ہوچکے ہیں اور اُن کا معاملہ بین الاقوامی طور پر متنازعہ ہے۔ اُن نشستوں کا مقصد محض نشستیں دینا نہیں بلکہ یہ دکھانا بھی ہے کہ یہ لوگ کشمیری حقِ خودارادیت کے ضامن ہیں اور اُن کا حقِ نمائندگی برقرار رہنا چاہیے۔ اگر یہ نشستیں ختم کر دی جائیں تو ایک بین الاقوامی و سیاسی تاثر بنے گا کہ مہاجرین کا معاملہ حل ہو چکا یا ان کی نمائندگی غیر ضروری ہے جو کشمیر کے تاریخی موقف کو کمزور کر سکتا ہے۔ 

عوامی ایکشن کمیٹی (JAAC) کے مطالبات —
JAAC جیسے احتجاجی و عوامی گروپ کے بہت سے مطالبات — مثلاً بجلی، آٹے، روزگار، مراعات میں کمی، انفراسٹرکچر کی بہتری — حقیقی عوامی مسائل ہیں اور انہیں سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ ان مطالبات پر بحث اور اصلاحی پالیسی منطقی اور جمہوری عمل کا حصہ ہیں۔ مگر جب کسی مطالبے کا تناظر قومی/بین الاقوامی اصولوں اور کشمیر کے قضیہِ حق خودارادیت سے متصادم ہو جائے تو اس پر محتاط تجزیہ ضروری ہے۔ حالیہ 38 نکاتی چارٹر میں بھی متعدد مطالبات عوامی فلاح کے زاویے سے قابلِ توجہ ہیں۔تاہم حالیہ برسوں میں عوامی ایکشن کمیٹی (Joint Awami Action Committee – JAAC) جیسے گروپوں نے 38 نکاتی مطالبات میں یہ نکتہ شامل کیا ہے کہ مہاجرین کی 12 نشستیں ختم کی جائیں۔ بظاہر یہ مطالبہ انتخابی اصلاحات کے نام پر پیش کیا گیا ہے لیکن اس کے اثرات کشمیر کے بنیادی مؤقف اور بین الاقوامی قانونی موقف کو براہِ راست متاثر کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مخصوص نشستیں کبھی کبھار سیاسی کنٹرول/منصوبہ بندی کے لیے استعمال ہو جاتی ہیں — یعنی وفاق یا دیگر قوتیں ان نشستوں کے ذریعے پسندیدہ سیاسی سیٹ اپ بنا دیتی ہیں۔ یہ پہلو حقیقی ہیں اور انہیں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے؛ کئی مطالعات اور رپورٹس میں اس امکان کا ذکر آیا ہے کہ یہ نشستیں کبھی کبھار نہیں بلکہ متعدد بار مقامی سیاسی توازن پر اثر انداز ہوتی ہیں اگر کہا جاتا ہے کہ کچھ نشستیں بدعنوانی یا منیپولیشن کے لیے استعمال ہو رہی ہیں، تو جمہوری راستہ یہی ہے کہ انتخابات کے عمل، شفافیت، حد بندی اور الیکٹورل نگرانوں کی مضبوطی کے ذریعے اصلاح کی جائے — نشستوں کا خاتمہ نہیں۔ یہ اصلاحی راستہ مقامی نمائندگی اور کشمیری موقف دونوں کو محفوظ رکھتا ہے۔ 
اگر ہم اس اصول کو مان لیں تو آزاد کشمیر کے اندر انتخابات میں بے ضابطگیاں، دھاندلی کے الزامات یا انتخابی تنازعات ہوں تو اُن کا حل آئینی و عدالتی طریقوں سے نکالا جائے؛ یہ ان نشستوں کو ختم کرنے کی جواز نہیں بن سکتا کیونکہ اس سے کشمیری پناہ گزینوں کی بین الاقوامی حیثیت متاثر ہو گی۔ 
لیکن نشستوں کا خاتمہ حل نہیں کیونکہ بین الاقوامی قانونی پس منظرمیں کشمیر کا مسئلہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے تحت حل ہونا ہے جوکہ اہل کشمیر کو ان کا بنیادی حق رائے دہی دیتا ہے کہ کشمیری جس کے ساتھ چاہیں رہیں یہ انکا استحقاق ہے ۔ مہاجرین کی نشستیں اسی تاریخی و بین الاقوامی دلیل کو زندہ رکھتی ہیں؛ انہیں ختم کرنا اس بنیادی دلیل کو کمزور کرے گا۔ 
اس تناظر میں مہاجرین (جو اصل کشمیری ہیں اور بھارت کے ظلم و ستم کے باعث ہجرت کر کے پاکستان اور آزاد کشمیر میں آباد ہیں) کی نشستیں ختم کرنا اس بنیادی اصول کو کمزور کرتا ہے، کیونکہ یہ نشستیں اس حقیقت کی علامت ہیں کہ وہ لوگ اپنی مرضی کے خلاف بے گھر ہوئے ہیں لیکن اب بھی کشمیر کے مستقبل پر ان کا حقِ رائے دہی محفوظ ہے۔ لیکن 12 مہاجرین کی نشستوں کا خاتمہ ایک ایسا مطالبہ ہے جو کشمیر کا اور بین الاقوامی موقف کو براہِ راست متاثر کرتا ہے۔یہ امکان موجود ہے کہ یہ نکتہ یا تو دانستہ بھارتی بیانیے کو تقویت دینے کے لیے شامل کیا گیا ہے یا پھر نادانستہ طور پر بھارت کے مقاصد کو تقویت پہنچا رہا ہے۔

جبکہ دوسری جانب بھارت نے 24 علامتی نشستیں جو کہ پاکستان کے زیرِ انتظام علاقوں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لئے رکھی گئی ہیں وہ بنیادی طور پر علامتی دعوے کی صورت میں جبکہ عملی نمائندگی نہیں ہوتی ہے اسی طرح بھارت نے کشمیری ہندو مہاجرین جوکہ دہلی اور انڈیا میں رہائش پذیر ہیں،کے لیے بھی نشستیں مختص کی ہیں تاکہ انہیں نمائندگی دے کر دنیا کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ بھارت کشمیری ہندوؤں کا “محافظ” ہے۔
بھارت اپنی علامتی نشستیں اور ہندو مہاجرین مقیم بھارت کی نشستیں برقرار کی رکھ کر اپنے دعوے کو مضبوط کر رہا ہے تو پاکستان یا آزاد کشمیر میں ان نشستوں کو ختم کرنا دراصل بھارتی موقف کے لیے فائدہ مندہوگا جبکہ کشمیری مسلمانوں کے اور کشمیر کیلئے دی گئی قربانیوں کے ساتھ غداری کے مترادف ہوگا ۔
• کیونکہ یہ نشستیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ لاکھوں کشمیری بھارت کے جبر اور قبضے کی وجہ سے اپنے گھروں سے محروم ہوئے۔
• انہیں اسمبلی میں نمائندگی دینا ان کے حقِ خود ارادیت اور مسئلہ کشمیر کے متنازعہ ہونے کی گواہی ہےاور واضح علامت ہے۔
• اگر یہ نشستیں ختم ہو جاتی ہیں تو دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ کشمیری مہاجرین کا مسئلہ “حل شدہ” سمجھا گیا ہے یا پھر ان شہداء کی قربانیوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہےاور اس کے بعد ہم ان اہل کشمیر کو کیاجواب دیں گے جو پچھلے 70 سال سے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں اور اپنے شہداء کی تدفین سبز ہلالی پرچم میں کرتے ہیں ۔

4. عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات کا جائزہ لیا جائے تو عوامی ایکشن کمیٹی کے بہت سے مطالبات عوامی فلاح اور انصاف سے متعلق ہیں جیسے بجلی، آٹا، مہنگائی اور مراعات کا خاتمہ۔ ان پر بات ہونی چاہیے اور یہ عوامی جدوجہد کا حصہ ہیں۔اقتصادی مطالبات درست ہیں لیکن مہاجرین کی نشستیں ختم کرنے والا مطالبہ کشمیری عوام کے سیاسی و تاریخی مؤقف کے خلاف ہے، اور یہ بھارتی ایجنڈے کو تقویت دیتا۔
اس موقعہ پر ان تمام سیاسی جماعتوں اور پارٹیوں کو آگئے آنا چاھیے جن نے تحریک آزادی کشمیر کے لیے ایک لمبے عرصہ تک قربانیاں دی ہیں ۔
ایک اہم نقطہ غلطیوں کا حل اصلاح
• مگر 12 مہاجرین/رفیوجی نشستوں کا خاتمہ (یا ان نشستوں کی مکمل منسوخی) اس وقت تک درست یا محفوظ اقدام نہیں جب تک بین الاقوامی قانونی پہلو، کشمیری کونسل کی نمائندگی، اور تاریخی پس منظر کو مکمل طور پر نظر انداز نہ کیا جائے۔ ایسی منسوخی سے کشمیر کے حقِ خودارادیت والے دلائل کمزور ہوں گے۔ 
• اگر نشستوں میں ناجائز دخل یا شفافیت کے مسائل ہیں تو ان کا حل جمہوری اصلاحات، انتخابی شفافیت، اور محتاط قوانین/آڈٹ کے ذریعے تلاش کیا جائے — نہ کہ نشستوں کے خاتمے کے ذریعے۔ 
1. شفافیت لائیے: مہاجر نشستوں پر انتخابات یا نامزدگی کے عمل میں شفافیت کی قانونی شقیں داخل کی جائیں؛ الیکشن کمیشن یا آزاد نگران کی صالحیت بڑھائی جائے۔ 
2. بین الاقوامی موقف محفوظ رکھیں: مہاجر نشستوں کو علامتی یا جمہوری طور پر ختم کرنے سے پہلے بین الاقوامی قانونی مضمرات کا جائزہ لیا جائے؛ بین الاقوامی قراردادوں کا حوالہ برقرار رکھا جائے۔

مہاجر نشستیں — ایک علامتی و عملی حیثیت
• آزاد کشمیر اسمبلی میں 12 نشستیں مہاجرین کے لئے مخصوص ہیں جو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے ہجرت کر کے پاکستان اور آزاد کشمیر میں آباد ہوئے۔
• ان نشستوں کا مقصد محض نمائندگی دینا نہیں بلکہ یہ باور کرانا ہے کہ وہ لوگ اصل کشمیری ہیں اور اپنی مرضی کے خلاف بے گھر ہوئے ہیں۔
• یہ نشستیں اس حقیقت کی علامت ہیں کہ کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے تحت اس کا حتمی فیصلہ ہونا باقی ہےبھارت کشمیری ہندوؤں کا “محافظ” ہے۔
بھارت اپنی علامتی نشستیں اور ہندو مہاجرین مقیم بھارت کی نشستیں برقرار کی رکھ کر اپنے دعوے کو مضبوط کر رہا ہے تو پاکستان یا آزاد کشمیر میں ان نشستوں کو ختم کرنا دراصل بھارتی موقف کے لیے فائدہ مندہوگا جبکہ کشمیری مسلمانوں کے اور کشمیر کیلئے دی گئی قربانیوں کے ساتھ غداری کے مترادف ہوگا ۔
• کیونکہ یہ نشستیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ لاکھوں کشمیری بھارت کے جبر اور قبضے کی وجہ سے اپنے گھروں سے محروم ہوئے۔
• انہیں اسمبلی میں نمائندگی دینا ان کے حقِ خود ارادیت اور مسئلہ کشمیر کے متنازعہ ہونے کی گواہی ہےاور واضح علامت ہے۔
• اگر یہ نشستیں ختم ہو جاتی ہیں تو دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ کشمیری مہاجرین کا مسئلہ “حل شدہ” سمجھا گیا ہے یا پھر ان شہداء کی قربانیوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہےاور اس کے بعد ہم ان اہل کشمیر کو کیاجواب دیں گے جو پچھلے 70 سال سے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں اور اپنے شہداء کی تدفین سبز ہلالی پرچم میں کرتے ہیں ۔

4. عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات کا جائزہ لیا جائے تو عوامی ایکشن کمیٹی کے بہت سے مطالبات عوامی فلاح اور انصاف سے متعلق ہیں جیسے بجلی، آٹا، مہنگائی اور مراعات کا خاتمہ۔ ان پر بات ہونی چاہیے اور یہ عوامی جدوجہد کا حصہ ہیں۔اقتصادی مطالبات درست ہیں لیکن مہاجرین کی نشستیں ختم کرنے والا مطالبہ کشمیری عوام کے سیاسی و تاریخی مؤقف کے خلاف ہے، اور یہ بھارتی ایجنڈے کو تقویت دیتا۔
اس موقعہ پر ان تمام سیاسی جماعتوں اور پارٹیوں کو آگئے آنا چاھیے جن نے تحریک آزادی کشمیر کے لیے ایک لمبے عرصہ تک قربانیاں دی ہیں ۔
ایک اہم نقطہ غلطیوں کا حل اصلاح
• مگر 12 مہاجرین/رفیوجی نشستوں کا خاتمہ (یا ان نشستوں کی مکمل منسوخی) اس وقت تک درست یا محفوظ اقدام نہیں جب تک بین الاقوامی قانونی پہلو، کشمیری کونسل کی نمائندگی، اور تاریخی پس منظر کو مکمل طور پر نظر انداز نہ کیا جائے۔ ایسی منسوخی سے کشمیر کے حقِ خودارادیت والے دلائل کمزور ہوں گے۔ 
• اگر نشستوں میں ناجائز دخل یا شفافیت کے مسائل ہیں تو ان کا حل جمہوری اصلاحات، انتخابی شفافیت، اور محتاط قوانین/آڈٹ کے ذریعے تلاش کیا جائے — نہ کہ نشستوں کے خاتمے کے ذریعے۔ 
1. شفافیت لائیے: مہاجر نشستوں پر انتخابات یا نامزدگی کے عمل میں شفافیت کی قانونی شقیں داخل کی جائیں؛ الیکشن کمیشن یا آزاد نگران کی صالحیت بڑھائی جائے۔ 
2. بین الاقوامی موقف محفوظ رکھیں: مہاجر نشستوں کو علامتی یا جمہوری طور پر ختم کرنے سے پہلے بین الاقوامی قانونی مضمرات کا جائزہ لیا جائے؛ بین الاقوامی قراردادوں کا حوالہ برقرار رکھا جائے۔

مہاجر نشستیں — ایک علامتی و عملی حیثیت
• آزاد کشمیر اسمبلی میں 12 نشستیں مہاجرین کے لئے مخصوص ہیں جو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے ہجرت کر کے پاکستان اور آزاد کشمیر میں آباد ہوئے۔
• ان نشستوں کا مقصد محض نمائندگی دینا نہیں بلکہ یہ باور کرانا ہے کہ وہ لوگ اصل کشمیری ہیں اور اپنی مرضی کے خلاف بے گھر ہوئے ہیں۔
• یہ نشستیں اس حقیقت کی علامت ہیں کہ کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے تحت اس کا حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے