بھلے شاہ کیا کہتے ہیں
پھلاں دا تو عطر بنا‘ عطراں دا فر کڈھ دریا
دریا وچ فر رج کے نہا‘ مچھلیاں وانگوں تاریاں لا
فر وی تیری بو نئیں مکنی‘ پہلے اپنی”میں“ مکا‘
میاں محمد بخش رح کیا فرماتے ہیں
میرے برادر عزیز یہ بھی سنیں
مٹھا میوا بیری دیوے
فر وی وٹے کھاوے
صبر بیری کا ویکھ محمد
نیکیاں کردی جاوے
میرے عزیز من ناصر میر
ناصر نے ہمیشہ دوسروں کے لیے نصرت کی ہے‘ میر تو پہاڑ ہے اور آپ کا دل بھی پہاڑ جیسا بلند اور چٹان جیسا مضبوط اور اتنا ہی شیریں بھی‘
آپ نے پارلیمنٹ ہاؤس میں گزرے ہوئے لمحات کو جس طرح بیان کیا ہے‘ واقعی آپ نے دل موہ لیا ہے افریقہ، ایشیا اور یورپ تک پھیلی ہوئی دولت بھی اپنی طاقت سے آپ کے ان جذبات کا جواب نہیں دے سکتی آپ کے الفاظ تاج و تخت کی چمک سے بہت بلند ہیں
میری جان
انسان کو اگر کوئی چیز قوت بخشتی ہے تو وہ خود احتسابی ہے‘خود احتسابی، جذبات پر قابو اور لمحہ موجود میں جینا سکون بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہے
ایک زبان ہی ہے جو سلطنت بناتی ہے اور ڈبوتی بھی ہے‘ اگر کسی نے اس کا استعمال سلطنت بنانے کے لیے کیا ہو تو سلطنت ڈوب ہی نہیں سکتی‘ لیکن اگر کوئی خود زبان کے چراغ کو بھجا ڈالے تو پھر سلطنت بھی ڈوب جاتی ہے سلطان کو بھی اپنے ساتھ ہی بہا لے جاتی ہے
آج کل تو نئی جنریشن ہے‘ سوشل میڈیا کا دور ہے‘ کون ہے جو بھلے شاہ کو پڑھتا ہو میاں محمد بخش سے فیض پانے کی کوشش میں ہو‘ بہت کم لوگ ایسے ملیں گے‘ اکثریت ایسی ہے جو سمجھتی ہے کہ بس انسٹاگرام کے گھوڑے کی پیٹھ پر کاٹھی ڈال لی ہے تو اب جو چاہو بولے جاؤ‘انسٹاگرام کی چمک دمک، فالوورز کی تڑپ اور لائکس کی کشش نے ایسے لوگوں کو ذات سے، اپنے خاندان سے اوریہاں تک کہ دوستوں اور معاشرے سے بھی دورکردیا ہے‘ اور خودی بھی چھین لی ہے‘ یہ ساری خودی ایک پرائے لنچ اور ڈنر کی پلیٹ میں آلو کی طرح بہہ رہی ہے‘ جس نے انسانوں کومصنوعی انسان بنا دیا ہے
آپ جیسے انسان‘ دوست‘ خیر خواہ اب کم رہ گئے ہیں‘ خود احتسابی، جذبات پر قابو اور لمحہ موجود میں جینا،سکون بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہے اور یہی ذہنی دباؤ کا عمدہ علاج ہے قناعت صرف غربت کا علاج نہیں بلکہ یہ روح کی آزادی بھی ہے‘ یہ انسانوں کو غیروں کے ناشتوں لنچ اور پرائے ڈنرز کے بوجھ سے آزادی بھی دلاتی ہے‘ہر وہ شخص جو خواہشات پر قابو پالے، وہ زندگی کے مشکل ترین حالات میں بھی پرسکون رہتا ہے‘ گھر کی روکھی سوکھی کھائیں تو زندگی میں سکون و اطمینان بڑھ جاتاہے‘ اگر کسی نے خود پر حکومت کرنی ہے‘ اور دوسروں پر حکمرانی کرنی ہے تو پھرطاقت ملتی ہے اپنی زبان پر کنٹرول حاصل کرکے‘ جو شخص اپنے جذبات کو قابو میں رکھ لیتا ہے وہ بیرونی دنیا کے طوفانوں میں بھی پرسکون رہتاہے۔ اندرونی حکومت انسان کو حقیقی آزادی اور سکون عطا کرتی ہے یہی اصل آزادی ہے
انسان اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ماضی اور مستقبل میں کھو دیتا ہے، حالانکہ اس کے پاس صرف یہ لمحہ موجود ہے۔جو شخص حال کو گلے لگاتا ہے وہ زندگی کے ہر لمحے کو مکمل شدت سے جیتا ہے اور اس کے لطف سے مستفید ہوتاہے۔یہی لمحہ دراصل اس کی سب سے بڑی دولت ہے۔ آپ نے پارلیمنٹ ہاؤس میں گزرے ہوئے لمحات کا زکر کرکے نفسیاتی طور پر مضبوط بنادیا ہے اصل آزادی تب ملتی ہے جب ہم اپنے خوف، لالچ اور غصے سے آزاد ہو جائیں۔ جو شخص اپنے جذبات اور خواہشات کو قابو میں رکھ لیتا ہے وہ کسی بھی بیرونی دباؤ کا غلام نہیں رہتا۔ یہ اندرونی آزادی ہی انسان کو بے خوف، باوقار اور خوددار بنا تی ہے
