ڈیورنڈ لائن کے سائے میں: پاک افغان سرحد پر نئی کشیدگی اور پرانے زخم”

باعث افتخار انجنیئر افتخار چودھری

پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر آج جو تازہ جھڑپیں سامنے آئیں وہ محض ایک معمولی سرحدی واقعہ نہیں بلکہ ایک طویل المنازعاتی تاریخ کی تازہ بازگشت ہیں۔ انگور اڈا، باجوڑ، کرم، دیر، چترال اور بارام چاہ جیسے حساس سیکٹرز میں افغان فورسز کی جانب سے بلا اشتعال فائرنگ کی اطلاعات موصول ہوئیں، جس کے فوراً بعد پاک فوج نے چوکس پوسٹوں کی بدولت بروقت اور سخت جواب دیا جس سے دشمن پوسٹیں شدید نقصان سے دوچار ہوئیں اور متعدد حملہ آور ہلاک ہوئے، جبکہ بعض مقامات پر حریف دستے مورچے چھوڑ کر فرار ہوئے۔ یہ واقعہ اسی وقت پیش آیا جب بعض اطلاعات کے مطابق افغان وزیرِ خارجہ کا ہندوستانی دورہ جاری تھا، جس نے واقعے کے سیاسی پس منظر کو زیادہ پیچیدہ بنا دیا۔ سیکیورٹی ذرائع واضح کرتے ہیں کہ یہ فائرنگ بظاہر اسی مقصد کے تحت کی گئی تھی کہ خوارج یا غیر ریاستی عسکری تشکیلیں سرحد پار کر کے اندرونی دہشت گرد کارروائیاں انجام دیں۔ پاکستان نے ایسے واضح خطرات کے پیشِ نظر نہ صرف دفاعی مؤقف اختیار کیا بلکہ حملہ آوروں کے خلاف مؤثر جوابی کارروائی کر کے ریاستی خودمختاری کا دفاع یقینی بنایا۔ ایسے واقعات اس حقیقت کو مزید اجاگر کرتے ہیں کہ پاکستان کو سرحدی دفاع کے لیے نہ صرف عسکری بلکہ سفارتی محاذ پر بھی چوکس رہنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اب جنگیں محض بندوق سے نہیں بلکہ بیانیے اور جغرافیائی حکمتِ عملی سے لڑی جاتی ہیں۔

یہ واقعہ محض ایک فوجی جھڑپ نہیں بلکہ ڈیورنڈ لائن کی تاریخی پیچیدگی اور خطے میں بیرونی عناصر کی مداخلت کا نتیجہ بھی ہے۔ یاد رہے کہ یہ لکیر 1893ء میں برطانوی نو آبادیاتی مفادات کے تحت کھینچی گئی اور افغانستان نے اسے اکثر اوقات قبول کرنے سے گریز کیا، جس نے دونوں اطراف کے سیاسی بیانیے اور شناختی مطالبات کو جنم دیا۔ پشتونستان کے نعرے اور سرحد پار قبائلی روابط اکثر اوقات اس کشمکش کو ہوا دیتے رہے۔ تاہم موجودہ دور میں جب دہشت گرد نیٹ ورکس اور اسمگلنگ کی بین الاقوامی راہیں تشکیل پا چکی ہیں، پاکستان نے دفاعِ حدود کے لیے عملی اقدامات کیے۔ 2017ء کے بعد ڈیورنڈ لائن پر باڑ بندی اور جدید نگرانی کے نظام نے سرحدی دراڑوں کو کم کیا مگر مکمل طور پر ختم نہیں کیا — یہی خلیج دشمن عناصر کو موقع فراہم کرتی رہی۔ اس پس منظر میں عملی طور پر سامنے آنے والے تازہ واقعے نے ثابت کیا کہ دفاعی احتیاط، بروقت کارروائی اور جارحانہ ردِعمل بعض اوقات ضروری ہو جاتے ہیں تاکہ وہ عناصر جن کا مقصد امن کو بگاڑنا ہے، ناکام ہوں۔ اسی مناسبت سے پاک فوج کی تیز اور فیصلہ کن کارروائی نے اس لمحے میں قومی سلامتی کو برقرار رکھا جبکہ بین الاقوامی سطح پر حقِ دفاع واضح کیا گیا۔ اسی دوران سرحدی کشیدگی کے حالیہ واقعات کا ایک تعلق گزشتہ چند دنوں میں پاکستان کے خلاف ہونے والی عسکری کارروائیوں اور دہشت گرد حملوں کے تسلسل سے بھی جوڑا جا سکتا ہے، جس کی وجہ سے سیکیورٹی فورسز کی طرف سے جارحانہ آپریشنز اور جوابدہی دونوں ضروری دکھائی دیتے ہیں۔

اس پورے معاملے کا جیوپالیٹیکل زاویہ اس لیے بھی اہم ہے کہ خطے میں بڑے کھلاڑی اپنی حکمتِ عملی کے تحت جگہ بنوانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ پاکستانی سکیورٹی حلقے بارہا دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ بھارت بعض اوقات افغان سرزمین کو ہمارے خلاف استعمال کرنے کی کوششوں میں ملوث رہا ہے، اور اسی خدشے کے تحت جب کابل-نیو دہلی تعلقات میں شدت آتی ہے تو وہ پاکستان کے لیے خطرات کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس موقع پر ضرورت یہی ہے کہ پاکستان نہ صرف میدانِ جنگ میں مؤثر ردعمل دے بلکہ سفارتی سطح پر بھی اپنے شواہد عالمی فورمز پر پیش کرے، ثالثی اور علاقائی شراکت داری کے دروازے کھلے رکھے اور چین، سعودی عرب، قطر جیسے ثالثوں کے ذریعے کشیدگی کو کم کرنے کی کوششیں تیز کرے۔ دونوں ہمسایہ ممالک کے عوام کی بھلائی دراصل امن و تجارت اور مشترکہ مفادات میں مضمر ہے۔ تاریخی تنازعات کا حل عسکری کارروائیوں سے کم اور سیاسی گفت و شنید اور مضبوط نگرانی سے زیادہ ممکن ہے۔ آخر کار، اس واقعے نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا کہ پاکستان اپنی حدود کا دفاع نہ صرف کر سکتا ہے بلکہ کرے گا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ خطے میں دیرپا امن کے لیے افغانستان کو اپنی سرزمین کسی بھی طرف سے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنا ہوگا، اور بین الاقوامی برادری کو بھی امن کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ ہم اس سرحدی کشیدگی کو مستقل حل کی طرف موڑ سکیں — یہ وہ راستہ ہے جو امن اور ترقی کی جانب لے جائے گا، نہ کہ انتقام اور انتشار کی طرف