طاقت کا استعمال خود حکومت کے لیے بدنامی اور ناکامی

نائب امیر جماعت اسلامی، سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل لیاقت بلوچ نے مسلم لیگ ن کے رہنما میاں مرغوب احمد کی اہلیہ کے انتقال پر تعزیت کی، اجتماعِ عام 2025ء کے انتظامی اجلاسات سے خطاب کیا اور سابق ڈپٹی کمشنر چوہدری عبدالغفور کے ظہرانہ میں شرکت کی. لیاقت بلوچ نے کہا کہ تحریکِ لبیک کے احتجاج کو سبوتاژ کرنے، پُرتشدد بنانے کی پنجاب حکومت ذمہ دار ہے. تحریک لبیک کیساتھ مذاکرات کئے جاتے. سابقہ احتجاجوں کے مذاکراتی معاہدوں پر عملدرآمد کا جائزہ لیا جاتا، ایسا کرنے کی بجائے طاقت کا استعمال خود حکومت کے لیے بدنامی اور ناکامی بنا ہے. پنجاب حکومت، سیکیورٹی ادارے تحریکِ لبیک سے مذاکرات کریں. جائز مطالبات کو تسلیم کریں اور فلسطین مسئلہ پر اپنی پالیسی کا حکومت دوٹوک اعلان کرے، تاکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے خدشات کا ازالہ ہوسکے. ملک کی تمام دینی جماعتیں تحریکِ لبیک کے احتجاج کی حمایت کرتی ہیں اور اس امر کا اعادہ کرتی ہیں کہ پُرامن احتجاج سیاسی، دینی جماعتوں کا آئینی جمہوری حق ہے. پُرتشدد احتجاج کی کوئی حمایت نہیں کرسکتا.
لیاقت بلوچ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ افغانستان کا انڈیا سے قُرب افغان عوام کی مرضی کے خلاف ہے. افغانستان اور پاکستان کے عوام ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور لازم و ملزوم ہیں. افغانستان کا انڈیا کی طرف جھکاؤ خطے کے لیے اچھا اقدام نہیں. افغانستان کی سرزمین دہشتگردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے. افغان مہاجرین کا باعزت اپنے وطن چلے جانا اب عالمی حالات کے تناظر میں فطری امر بن گیا ہے. عوام یہ بھی تحفظات رکھتے ہیں کہ پاکستانی حکومت اور پالیسی سازوں نے روس اور امریکہ کے خلاف افغانستان کی مزاحمت میں افغان عوام کے ساتھ تعاون اور مدد کے باوجود اپنے اسلوب، ہینڈلنگ اور رویوں سے دل مجروح کیے ہیں. پاکستان سے اکابر علماء اور افغان امور کے ماہرین کو اب بھی موقع دیا جائے کہ وہ پاک افغان تعلقات کو سنبھالنے اور معمول پر لانے کا کردار ادا کریں.
لیاقت بلوچ نے کہا کہ غزہ فلسطین میں جنگ بندی خوش کُن اقدام ہے. حماس اور فلسطینیوں کا پہلا حق ہے کہ اُن کے لیے مستقل امن اور جنگ بندی پر مبنی اقدامات کیے جائیں. ہماری دُعائیں اور ہر طرح کا تعاون فلسطینیوں کیساتھ ہیں. ہمارا مضبوط مؤقف ہے اور فلسطینی حماس قیادت بھی پختہ یقین رکھتی ہے کہ امریکی سرپرستی میں فلسطینیوں اور اسرائیل کا معاہدہ مستقل معاہدہ نہیں ہوسکتا. دو ریاستی حل، ابراہیمی معاہدہ دھوکہ ہے. یہ امر بالکل واضح ہے کہ اسرائیل کا وجود ناجائز ہے. اسرائیلی ناسور عالمی امن کے لیے مستقل خطرہ ہے. عالمِ اسلام کا اتحاد اور دفاع، اقتصاد و ٹیکنالوجی کے میدانوں میں مشترکہ لائحۂ عمل ہی فلسطین و کشمیر کو آزادی دِلاسکتا ہے. امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی متلون مزاجی اور صیہونی دباؤ اُسے نوبل انعام سے محروم کرگیا.#