28 سالہ صالح الجعفراوی کو غزہ کے علاقے صبرا میں فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا۔ انہوں نے اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی اور جنگ کے اثرات کو دستاویزی انداز میں دنیا تک پہنچا کر شہرت حاصل کی۔ فلسطینی صحافی کے حالیہ قتل میں بھی حماس مخالف گروہ کا ہاتھ بتایا جارہا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ماضی میں حماس کو کمزور کرنے کے لیے مخالف گروہوں کو مسلح کرنے کی تصدیق کرچکے ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق صالح الجعفراوی کو اتوار کی رات غزہ کے علاقے صبرہ میں اس وقت فائرنگ کرکے شہید کیا گیا جب وہ اسرائیل نواز مسلح گروہ اور حماس کے درمیان جاری جھڑپ کی رپورٹنگ کررہے تھے۔ ذرائع کے مطابق یہ جھڑپ حماس اور دوغمش (Doghmush) قبیلے کے درمیان جاری تھی۔غزہ کی وزارت داخلہ کے ایک سینئر عہدیدار نے الجزیرہ کو بتایا کہ غزہ شہر میں ہونے والی جھڑپوں اور بدامنی کے واقعات میں اسرائیل نواز مسلح ملیشیا کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ غزہ واپس آنے والے شہریوں کے قافلوں پر فائرنگ کے واقعات میں بھی یہی گروہ ملوث ہے تاہم ان کا محاصرہ کرلیا گیا ہے۔
غزہ کے مقامی میڈیا کی جانب سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز اسرائیلی حمایت یافتہ گروہ کے خلاف کارروائی میں مصروف ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ گروہ غزہ میں آنے والی امداد کی لوٹ مار، مزاحمتی گروہوں کے اراکین کے اغوا اور قتل میں ملوث ہیں۔اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے ان تازہ جھڑپوں میں امن مذاکرات اور جنگ بندی میں اہم کردار ادا کرنے والے حماس کے سینئر عہدیدار ڈاکٹر بسیم نعیم کے بیٹے کی شہادت کا بھی دعویٰ کیا ہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق جولائی میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے تصدیق کی تھی کہ اسرائیل غزہ میں اُن قبائل کو ہتھیار دے رہا ہے جو ان کے بقول حماس کے مخالف ہیں۔ تاہم یاسر ابو شباب نے انٹرنیٹ پر جاری کیے گئے بیان میں اسرائیل کی جانب ہتھیاروں کی فراہمی کو ’واضح طور پر مسترد‘ کیا تھا۔