آئین کے آرٹیکل62 اور 63 کی کہانی
دو منظر ہمارے سامنے تھے‘ ایک منظر تھا کہ ایک سابق وزیر اعظم پانامہ کیس کا سامنا تھا‘ دوسرا منظر تھا کہ عدالت صادق اور امین کے سرٹیفیکیٹ بانٹ رہی تھی‘ عدالت میں بابا رحمتے تھا‘ ہر کوئی سمجھ جاتا ہے کہ کس کی بات ہورہی ہے‘ عدالت صادق اور امین کے ”سرٹیفیکیٹ“ بانٹ رہی تھی اور اس ملک کے سیاسی عہد کو برباد کر رہی تھی‘ جسے یہ سرٹیفیکیٹ ملا اس کے سیاسی پیروکار بہت خوش ہوئے‘ نہال ہوگئے‘ دھمال ڈالی گئی‘ بس اب ملک کو مسیحا مل گیا‘ تجات دھندہ مل گیا‘ غرض جو کچھ بھی پیروکار کہہ سکتے تھے‘ کہتے چلے گئے‘ سیاسی مخالفین کی بھد بھی اڑاتے رہے‘ پھر وقت بدل گیا‘ لڈو کے سانپ سیڑھی والا کھیل شروع ہوا‘ جسے سیڑھی ملی تھی اور وہ ایک سے ننانوے تک جاپہنچا تھا اسے وہاں سے سانپ نے ڈس لیا یوں وہ دوبارہ زیرو پر آگیا‘ جب منظر بدلا توجسے سانپ نے ڈس لیا تھا اب اسے سیڑھی مل گئی وہ دوبارہ ننانوے کے ہندسے تک جا پہنچا‘ سات دہائیوں سے یہی کھیل ہماری سیاسی زندگیوں کو آکاس بیل کی مانند جکڑے ہوئے ہے‘ آئین ہمارا عہد ہے مگر ہم نے اسے بھلا دیا ہے اور یوں بے شمار امراض ہم پر حملہ آور ہیں‘ وقت کسی کے لیے نہیں رکتا‘ یہ حساب کتاب لے کر رہتا ہے‘ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ یکا یک سیاسی پنڈال میں شور مچ گیا کہ گھڑی گم ہوگئی ہے‘ تحقیقات ہوئیں تو پتہ چلا گم نہیں بلکہ بیچ دی گئی ہے‘ جس نے گھڑی بیچی اس کے پیروکار آج نہ جانے کیا کچھ بیچ گئے ہیں‘ معاملہ پھر سے عدالت میں ہے‘ دیکھتے ہیں کیا فیصلہ ہوتا ہے؟ ہم سب فیصلے کے منتظر ہیں
یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے یا ہورہا ہے کہ جب ہمارے آئین میں آرٹیکل62-63 کی شقیں موجود ہیں‘ یہ پارلیمنٹ کا ممبر بننے کے خواہش مند انسان کے اخلاقیات کا احاطہ کرتی ہیں‘مگر ان شقوں کو کون مانتا ہے‘ سب کی خواہش رہتی ہے کہ جیسے تیسے بھی ہو‘ پہلے منصب حاصل کیا جائے پھر کوشش ہوتی ہے کہ منصب ہر حال میں بچایا جائے‘ آئین‘ قانون اخلاقیات کی ان کی نذدیک کوئی اہمیت نہیں ہوتی‘ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ لڑے لڑتے ہوگئی گم ایک کی چونچ اور دوسرے کی دم جب ایسے حالات ہوں جائیں تو پھر دو بلیوں کے مابین روٹی کی تقسیم کا فیصلہ بندر کے پاس جاتا ہے جو ان دونوں میں سے کسی کو بھی روٹی نہیں دیتا بلکہ انصاف کرتے کرتے روٹی تولتے تولتے ساری روٹی خود ہی کھا جاتا ہے‘ ہر دور کے بابے رحمتے کی وجہ سے اس ملک کو یہ دن دیکھنا پڑے ہیں
علم سیاسیات کہتا ہے کہ ہر قانون کی اساس اخلاقیات ہوتی ہیں‘ اخلاقیات کا درجہ قانون سے بڑھ کر ہے‘ لیکن جب انسان خوف اور بھوک میں مبتلا ہوجاتا ہے تو پھر وہ اخلاقیات دیکھتا ہے نہ قانون………… بس جو دل کہتا ہے وہی کرتا ہے
قسم ہے زمانے کی کہ انسان خسارے میں ہے
مگر وہ لوگ جو ایمان لائے‘ نیک عمل کرتے رہے‘ حق بات کہتے رہے اور صبر کی تلقین کرتے رہے
نیک اور صالح عمل کیا ہے؟
اس کا جواب صرف ایک سطر میں ہے جس نے عہد نہیں نبھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے‘ یہ کس کا فرمان ہے؟ یہ نبی آخرالزمانﷺ‘ جن پر میرے ماں باپ‘ اولاد اور سب کچھ قربان‘ یہ ان کا فرمان جن کی وجہ سے ہم مسلمان ہیں
یہ ہر انسان اپنے دل اور دماغ سے پوچھے تو درست جواب مل جائے گا‘ اگر وہ اپنے سدھائے ہوئے نفس سے پوچھے تو کبھی جواب نہیں ملے گا بلکہ نفس اسے ابھارتا رہے گا کہ بس ہر قیمت پر دنیاوی منصب ہاتھ سے نہیں جانے دینا
یہ باالکل وہی منظر جو چار سال قبل دنیا کے ایک بڑے ملک کے سبک دوش ہونے والے صدر کے بارے میں تھا جب وہ منصب چھوڑنے کی بجائے ہر قیمت پر اپنے آفس سے چمٹے رہنا چاہتا تھا پھر اس کے اس عمل پر بہت سی ممیمز بنیں
سوال یہ ہے کہ
آخر حضرت انسان کیوں اپنے نفس کے ملبے تلے دبے رہنا پسند کرتا ہے
جب ایک سابق وزیر اعظم پانامہ کیس کا سامنا کر رہا تھا اس وقت بھی ایک بابا رحمتے غلط فیصلے کر رہا تھا آج بھی ایسا ہی منظر کہیں کہیں ہمیں نظر آرہا ہے‘ محسوس ہورہا ہے‘ یہ منظر ہمیں چھو رہا ہے وجہ یہ کہ امریکا سے لے کر غزہ تک بابا رحمتے کی باقیات ابھی موجود ہیں‘
اللہ کرے اس ملک میں تخریب کی قوتوں کو شکست ہو اور تعمیر کی قوتیں جڑ پکڑیں‘ تب کہیں جاکر ہمیں آئین‘ قانون پر عمل ہوتا دکھائی دے گا اگر دنیا میں اخلاقیات نے جڑ پکڑ لی تو پھر امن ہی امن ہوگا‘ تعمیر ہوگی اور ترقی ہوگی اگر ہر قیمت پر‘ ہر صورت منصب پر قبضے کیجنگ رہی تو پھرخواب بھی چکنا چور ہو گا اور بد امنی کی راہ ہموار نظر آئے گی
آج مشرق وسطی میں بحران ہے
غزہ کی تعمیر نو کا خرچہ اربوں ڈالر ہو گا لیکن دنیا کا کونسا سرمایہ کار اس طرف آئے گا جب اسے کوئی یہ ضمانت نہیں دے گا کہ یہاں جنگ دوبارہ شروع چھڑے گی‘ اگر کوئی غزہ کی تعمیر نو میں سنجیدہ ہے تو اسے ویژن دینا ہوگا اور تعمیر نو کے عمل کو مستحکم کرنا ہوگ ورنہ غزہ کی تعمیر محض ایک مخمصہ ہی بنی رہے گی یہ مت بھولیے کہ یہ کہانی صرف غزہ کی ہے اور صرف غزہ تک محدود تصور ہوگی‘ اس کی حدت تیزی سے پھیل رہی ہے اور یہ ہم سب کے گھروں تک بھی پہنچ سکتی ہے بلکہ پہنچ چکی ہے
کچھ اس ماہ کی تاریخ پر بات بھی ہوجائے
یہ اکتوبر کا مہینہ ہے
28 اکتوبر1958 کو اس ملک میں وزیر اعظم کا عہدہ ختم کردیا گیا تھا‘ اور صدارتی نظام کی کابینہ بن گئی تھی‘ گویا ووٹ کی طاقت ختم کر دی گئی تھی……………… اس واقعہ کو گزرے آج67 سال ہوگئے ہیں‘ آج پھر اکتوبر کا مہینہ گزر رہا ہے اور اٹھائییس تاریخ بھی آنی ہے‘ اللہ ہی خیر کرے
