نائب امیر جماعت اسلامی، مجلسِ قائمہ سیاسی قومی امور کے صدر لیاقت بلوچ نے روہڑی، سکھر، بہاولپور میں عوامی پروگرامات اور منصورہ لاہور میں جماعت اسلامی اجتماع عام کے انتظامی مشاورتی اجلاسوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی اور ملک کی نظریاتی، جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے قوم سیسہ پلائی دیوار ہے. یہ حکومت اور بالادست اداروں کی ذمہ داری ہے کہ قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے جرات مندانہ اقدام، عالمی سفارتی سطح پر بھرپور سرگرمیوں کے ساتھ ملک کے اندر عوامی اعتماد کی بحالی، حقیقی جمہوری، پارلیمانی اور آئینی نظام کے قیام کے لیے عوامی اعتماد اور طاقت کو جائز مقام دیں. عوام فرسودہ، گلے سڑے اور غیرمتوازن، غیرمنصفانہ نظام کے باغی ہیں. ریاست اور عوام کے درمیان فاصلہ دشمن قوتوں کو شیطانی کھیل کھیلنے کا موقع دے رہا ہے.
لیاقت بلوچ نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے ضابطہ اخلاق میں ترامیم کیں، ھم خیرمقدم کرتے ہیں. عدالتی نظام پہلے ہی کمزور ترین سطح پر تھا لیکن 26 ویں آئینی ترمیم کے ناجائز تسلط سے عدلیہ کو تقسیم اور تضادات و اختلافات کا مرکز بنادیا گیا. پارلیمنٹ اپنی غلطی تسلیم کرے، پھر سپریم کورٹ عدلیہ کی آزادی پر 26 ویں آئینی ترمیم کا ناجائز تسلط خود ختم کردے.
لیاقت بلوچ نے کہا کہ بھارتی حکومت پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، سری لنکا کی کرکٹ ٹیموں اور کھیل کے خلاف سازش کررہی ہے. چاروں ملکوں میں کرکٹ کے حوالے سے نوجوان کھلاڑیوں میں بڑا ٹیلنٹ ہے. پاکستان اور افغانستان میں تعلقات نارمل ہو ہی جائیں گے، دونوں برادر پڑوسی اسلامی ممالک جنگ اور بدامنی کے متحمل نہیں ہوسکتے، لیکن افغانستان بھارتی ایماء پر کھیل اور نوجوانوں میں نفرتوں کا زہر نہ گھولے. پاک افغان حکومتوں کو اب یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ “گُڈ اور بیڈ دہشت گردی” کا ڈاکٹرائن اب ناکام ہوگیا ہے. افغان سرزمین پر موجود پاکستان میں دراندازی میں ملوث دہشت گرد تنظیموں کے خاتمہ کے ذریعے پاک افغان تعلقات کی مضبوطی اور باہمی اعتماد کی بحالی ناگزیر ہے. امریکہ، اسرائیل، انڈیا کا مفاد بھی اِسی میں ہے کہ مڈل ایسٹ میں بھی تنازعات قائم رہیں اور جنوبی ایشیا میں بھی پاکستان، افغانستان، ایران کے تعلقات تناؤ کا شکار رہیں.
لیاقت بلوچ نے کہا کہ پنجاب حکومت کا تحریکِ لبیک پر پابندیوں کا فیصلہ عجلت اور بدنیتی پر مبنی ہے. سیاسی، مذہبی جماعتوں پر پابندیاں نفرتوں اور تفرقوں کو بڑھاتی ہیں. کوئی بھی پارٹی آئین، قانون اور سیاسی جمہوری اُصولوں سے ہٹ کر سرگرمی کرے تو قانون کے مطابق اقدام ہو لیکن ریاست اندھی طاقت سے بالخصوص سیاسی مذہبی جماعتوں کو ٹارگٹ کرے تو یہ ایک غیرمنصفانہ اور ناقابلِ قبول عمل ہے. مساجد، مدارس اور دینی تعلیم پر بندشیں، گھروں کو مسمار کرنا درست اقدام نہیں. مِلی یکجہتی کونسل کا سربراہی اجلاس طلب کیا جارہا ہے، دینی جماعتوں کے سربراہ حالات کی بہتری کے لیے لائحۂ عمل طے کریں گے.
