باعث افتخار انجینئر افتخار چودھری
حقیقت یہ ہے کہ جب سے میں نے بزدلوں کا مشورہ لینا چھوڑ دیا اس دن سے میں سکون میں ہوں
کسی نے کہا تھا کہ بزدل سے مشورہ مت کرنا وہ ہمیشہ اپ کو بزدلی سکھائے گا دلیروں میں اٹھو بیٹھو اگر نہیں بیٹھ سکتے تو اپنے مزاج کے مطابق زندگی ہو گزارنا شروع کرو کسی کا حق نہ کھاؤ اور کسی کو حق کھانے بھی نہ دو
سچی بات یہی ہے کہ دنیا میں جینے، بڑھنے اور کامیاب ہونے کے لیے صرف خواہش یا دعا کافی نہیں ہوتی۔ اس کے لیے انسان کو حالات سے لڑنا پڑتا ہے، وقت سے پنجہ آزمائی کرنی پڑتی ہے، اور اکثر اوقات اپنے قریبی رشتہ داروں، دوستوں، حتیٰ کہ اپنے ضمیر سے بھی مکالمہ کرنا پڑتا ہے۔ زندگی کا میدان جنگ، کسی سپاہی کی محاذ پر دی گئی قربانی سے کم نہیں۔ یہاں بھی جیتنے کے لیے زخم کھانے پڑتے ہیں، مگر یہ زخم بدن پر نہیں، دل پر لگتے ہیں۔
انسان جب اپنی منزل کے تعین میں سچائی سے کام لیتا ہے، تو راستے میں آنے والی رکاوٹیں، مخالفتیں، طنز، اور بے وفائیاں اسے روک نہیں سکتیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ اندر سے یقین قائم رہے کہ “میں غلط نہیں ہوں۔”
یہی یقین اصل قوت ہے، یہی یقین انسان کو تنہا ہونے کے باوجود مضبوط رکھتا ہے۔
میں نے اپنی زندگی میں یہ بات سیکھی کہ جو آدمی اپنی سچائی پر قائم رہتا ہے، وہ وقتی طور پر نقصان اٹھا سکتا ہے، مگر آخرکار جیت اسی کی ہوتی ہے۔ دنیا کو وقتی چمک دکھائی دیتی ہے، مگر وقت کا دائرہ جب گھومتا ہے تو اصلی کردار خود بخود نمایاں ہو جاتے ہیں۔
دنیا کا اصول بڑا ظالم ہے — یہاں جھوٹ بولنے والے کو اکثر داد ملتی ہے، سچ کہنے والا تنہا رہ جاتا ہے۔ مگر میں نے ہمیشہ دیکھا کہ جو لوگ موقع پرستی سے فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ وقتی کامیاب تو ہوتے ہیں لیکن اندر سے کھوکھلے رہ جاتے ہیں۔
زندگی نے کئی سبق دیے۔ بہت سے لوگ ملے جو کہتے تھے:
“جناب، میں ساری زندگی آپ کا ساتھ دوں گا۔”
“میں آپ کا تابعدار رہوں گا۔”
لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ جملے صرف زبان کے ہار نہیں، دھوکے کے زیورات ہیں۔
ایسے لوگ پہلے ہی دن پہچان لینے چاہییں۔ کیونکہ جو انسان کسی کا “تابعدار” بننے کا دعویٰ کرے، وہ دراصل موقع کا منتظر ہوتا ہے — جیسے ہی ہوا کا رخ بدلتا ہے، وہ پرچم بھی پلٹ جاتا ہے۔
میں نے اپنی زندگی میں بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ وقت گزارا، ان کے لیے مشکل وقت میں کھڑا بھی ہوا، بعض اوقات ایسے کام بھی کیے جو قانون کی رو سے درست نہ تھے، مگر دل نے کہا — “یہ غریب ہے، مسکین ہے، اس کا کام کر دو۔”
مگر افسوس، یہ دنیا جذبات کو نہیں، نتائج کو تولتی ہے۔
جو لوگ عقل، منصوبہ بندی، اور خود غرضی کے ساتھ چلتے ہیں، وہی کامیاب کہلاتے ہیں۔ اور جو دل کے ہاتھوں مجبور ہو جائیں، ان کے حصے میں اکثر “شکر گزار یادیں” رہ جاتی ہیں، شکر گزار لوگ نہیں۔
میں جب آج کل کے سیاسی منظرنامے کو دیکھتا ہوں تو حیرت نہیں ہوتی، کیونکہ یہ سب تو برسوں سے دیکھ رہا ہوں۔
عمران خان جیسے انسان، جو نظریے اور ایمان کے ساتھ سیاست میں آئے، ان کے گرد بھی وہی لوگ جمع ہوئے جو ہمیشہ طاقت کے اردگرد منڈلاتے ہیں۔
مجھے یاد ہے، جب عمران خان کے جلسے عروج پر تھے، اسٹیج کے گرد وہی چمچے کھڑے ہوتے تھے جو زور سے نعرے لگاتے، کیمروں کے سامنے آتے، اور خان صاحب کے قریب نظر آنے کے لیے ایک دوسرے سے دھکم پیل کرتے۔
یہ سب منظر دیکھ کر دل کہتا تھا —
“یہ وہی لوگ ہیں جو کل مشکل وقت میں سب سے پہلے بھاگیں گے۔”
اور پھر ایسا ہی ہوا۔
جس وقت عمران خان پر برا وقت آیا، جنہوں نے اُس کے ساتھ اقتدار کے دنوں میں تصویر بنوائی تھی، وہی لوگ سب سے پہلے غائب ہوئے۔
کچھ نے وفاداری بدل لی، کچھ نے خاموشی اوڑھ لی، اور کچھ نے اپنے ضمیر کی قیمت وصول کر لی۔
سیاست تو ایک آئینہ ہے، مگر اصل چہرے عام زندگی میں بھی یہی ہیں۔
ہر معاشرے میں، ہر محفل میں، ہر دفتر اور ہر تعلق میں ایسے کردار پائے جاتے ہیں۔
وہ ہمیشہ طاقت کے قریب رہنا چاہتے ہیں، سچائی کے نہیں۔
جب حالات اچھے ہوں تو تعریف کے گیت گاتے ہیں، اور جب مشکل وقت آئے تو پہچاننے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ دنیا میں سب سے زیادہ نقصان “جذباتی لوگوں” کو ہی کیوں ہوتا ہے؟
وجہ صاف ہے —
کیونکہ وہ ہر بات دل سے کرتے ہیں، اور دنیا دل نہیں، دماغ سے چلتی ہے۔
جو دل کے معاملے میں عقل سے کام لے، وہ زندگی میں کبھی خالی ہاتھ نہیں رہتا۔
مگر جو صرف نیت اور جذبے پر بھروسہ کرے، وہ اکثر اس دنیا کی چالوں میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔
میں نے یہ بھی دیکھا کہ بعض اوقات انسان کسی کے لیے اچھا سوچتا ہے، لیکن وہی نیکی بعد میں بوجھ بن جاتی ہے۔
آپ کسی کا کام کروا دیتے ہیں، وہ شکر گزار ہونے کے بجائے سمجھتا ہے کہ یہ تو میرا حق تھا۔
آپ کسی پر احسان کرتے ہیں، تو وہ وقت آنے پر یہی احسان آپ کے خلاف ہتھیار بنا لیتا ہے۔
یہی دنیا ہے — جہاں مخلصی کم، موقع زیادہ ہے۔
انسان کو سیکھنا چاہیے کہ ہر تعلق میں فاصلہ رکھنا برائی نہیں، بلکہ حفاظت ہے۔
جو لوگ کہتے ہیں “ہم آپ کے غلام ہیں”، ان پر کبھی بھروسہ نہ کریں۔
سچے ساتھی وہ ہیں جو اختلاف کے باوجود آپ کے ساتھ کھڑے رہیں، چاپلوسی کے بغیر خیرخواہی کریں۔
اب بھی عمران خان کے اردگرد جو لوگ ہیں، ان میں کچھ ایسے ہیں جو وقت کے ساتھ آزمائے جائیں گے۔
جو آج ان کے قریب ہیں، وہ سب ویلفی وشر نہیں۔
کچھ اپنی سیاسی دکانیں چمکا رہے ہیں، کچھ اپنی ذاتی ساکھ کو زندہ رکھنے کی کوشش میں ہیں۔
لیکن سچے خیرخواہ — وہ کہیں پیچھے بیٹھے ہیں، دور سے دعا دیتے ہیں، بولتے کم ہیں مگر دل سے ساتھ ہیں۔
یہی سچائی ہے جو دنیا کی ہر کہانی میں دہرائی جاتی ہے۔
سیدھی راہ پر چلنے والے کم ہوتے ہیں، مگر تاریخ انہی کو یاد رکھتی ہے۔
موقع پرست وقتی تالیاں بجوا لیتے ہیں، مگر آنے والے وقت میں ان کا نام کسی دیوار پر نہیں لکھا جاتا۔
زندگی کا تجربہ بتاتا ہے کہ انسان اگر خود کے ساتھ سچا ہو جائے، تو دنیا کے جھوٹ سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
وقت کے ساتھ ساتھ دوست بدلتے ہیں، چہرے بدلتے ہیں، مگر انسان کا ضمیر اگر قائم رہے، تو یہی اس کا اصل سرمایہ ہے۔
میں نے خود پر یہ اصول لازم کر لیا ہے —
کبھی کسی سے وہ وعدہ نہ کرو جو ساری زندگی نبھانے کے قابل نہ ہو،
اور کسی کے وعدے پر اندھا یقین نہ کرو، کیونکہ لوگ بدل جاتے ہیں، وقت بدل جاتا ہے،
اور جو نہیں بدلتا، وہ صرف ایک چیز ہے — سچائی۔
یہی سچائی ہے جو انسان کو زندگی میں مضبوط بناتی ہے۔
جس نے سچ کا دامن پکڑ لیا، وہ چاہے لمحاتی طور پر تنہا ہو، مگر آخر میں سرخرو وہی ہوتا ہے۔
یہ دنیا جھوٹوں کی منڈی ہے، مگر تاریخ سچوں کے نام لکھتی ہے۔
> “زمانہ جھوٹ سے بھرا ہے، مگر سکون ہمیشہ سچ کے دامن میں ملتا ہے۔”
