علمی تحقیقات میں پاکستان میں جبری تبدیلیٔ مذہب کے شواہد نہیں ملے: ماہرین

اسلام آباد—– پاکستان میں مذہب پر عمل کی آزادی کے دستوری تحفظ اور قرآن مجید میں دین میں عدم جبر کی تعلیمات بالعموم پاکستانی معاشرے میں بھی جھلکتی ہیں اور اسلام کی طرف جبری تبدیلیٔ مذہب کے الزامات کو اب تک مستند شواہد سے ثابت نہیں کیا جا سکا۔ یہ اتفاقِ رائے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) اسلام آباد کے زیرِ اہتمام منعقدہ گول میز مکالمے ” پاکستان میں تبدیلیٔ مذہب کی حرکیات “ میں سامنے آیا۔ اس نشست میں سماجیات، بشریات، مذاہب اور بین المذاہب تعلقات کے شعبوں سے وابستہ محققین اور اہل دانش نے شرکت کی۔ اجلاس میں پیش کی جانے والے چھ تحقیقی مطالعات نے سندھ اور جنوبی پنجاب کے ان علاقوں سے متعلق مشاہدات کا تذکرہ کیا جہاں جبری تبدیلیٔ مذہب کے الزامات زیادہ تر عائد کیے جاتے ہیں۔ رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کی ڈاکٹر قدسیہ فردوس نے اپنے پی ایچ ڈی تحقیقی مطالعے کے نتائج پیش کیے جو بہاولپور اور یزمان میں ہندو مسلم تعلقات پر مبنی تھا۔ انہوں نے پانچ سالہ میدانی تحقیق کے دوران مندروں کے دورے کیے، ہندو تہواروں میں شرکت کی اور مقامی برادری سے گہرا رابطہ رکھا۔ ان کے مطابق دونوں برادریاں نمایاں طور پر باہم یگانگت اور ہم آہنگی کے ساتھ رہتی ہیں۔ سو شرکاء پر مبنی ان کے سروے میں جبری تبدیلیٔ مذہب کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا۔ اکثریت نے مذہبی آزادی کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہوئے منظم جبر اور ظلم کے بیانیے کی نفی کی۔ ایک غیر حکومتی سماجی تنظیم کی نمائندگی محترمہ فرح کاشف نے کی۔ اس تنظیم نے حال ہی میں پنجاب اور سندھ میں شادیوں کے ذریعے جبری تبدیلیٔ مذہب کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جو پندرہ ماہرین اور تین متاثرہ خواتین سے انٹرویوز پر مبنی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ تبدیلیٔ مذہب کے معاملات میں دباؤ موجود تھا، تاہم اکثر اوقات یہ جسمانی جبر کی صورت میں نہیں بلکہ ترغیب یا دباؤ کے ذریعے رضامندی کو متاثر کرنے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد سے ایم ایس میں اسی موضوع کا مطالعہ کرنے کے بعد جامعہ کراچی میں پی ایچ ڈی کے لیے اس موضوع کو کھنگالتے محقق واجد منصور نے پاکستان میں تبدیلیٔ مذہب سے متعلق عوامی بیانیے کو “پروپیگنڈہ پر مبنی” قرار دیا۔ ان کے بقول “میڈیا کے ذریعے تشکیل دیا گیا بیانیہ زمینی حقائق کی نمائندگی نہیں کرتا۔” سندھ میں مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے 42 افراد — جن میں نو مسلم، علما اور برادری کے رہنما شامل تھے — کے انٹرویوز کی بنیاد پر انہوں نے بتایا کہ نچلی ذات کے ہندوؤں میں تبدیلیٔ مذہب کی وجوہ سماجی عوامل سے وابستہ ہیں۔ ان کے بقول ان کی تحقیق میں کسی بھی جبری شادی کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا۔ ڈاکٹر غلام حسین نے 6,055 نو مسلموں کے اعداد و شمار اور 110 انٹرویوز کی بنیاد پر اپنی تحقیق پیش کی،جن میں نو مسلم، ان کے اہلِ خانہ، ہندو پنچایتوں کے نمائندے، علما، وکلا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار شامل تھے ۔ ایک دہائی سے زائد عرصے پر محیط بشریاتی تحقیق کے بعد انہوں نے سندھ میں جبری تبدیلیٔ مذہب کے دعووں کو قطعی طور پر مسترد کیا۔ ان کے مطابق “یہ تبدیلیاں یا تو رضاکارانہ ہوتی ہیں یا اپنے سابقہ مذاہب میں موجود بعض اندرونی عوامل کے باعث وقوع پذیر ہوتی ہیں۔” انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ سندھ میں صدیوں سے مختلف مذاہب کے مابین تبدیلیٔ مذہب کا عمل جاری ہے، اور اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی ڈاکٹر تیمیہ صبیحہ نے اپنی زیرِ نگرانی کی گئی محقق ثنا ہارون کی تحقیق پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پنجاب اور سندھ میں خواتین کے اسلام قبول کرنے کے بعض واقعات کا مطالعہ کیا گیا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ “کسی بھی خاتون نے ایک دم اسلام قبول نہیں کیا؛ یہ عمل ہمیشہ غور و فکر، تلاشِ معنویت اور زندگی کے مقصد کی جستجو کے مہینوں بلکہ برسوں پر محیط ہوتا ہے۔” سندھ کی ایک معروف دینی درگاہ کے نمائندہ حمدان علی نے بتایا کہ ان کے ہاں اسلام قبول کرنے کے واقعات اکثر ہوتے ہیں۔ ایسے ہر موقع پرعلما مکمل رضامندی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھاتے ہیں۔ ان کے بقول، “ہم خاندانوں، مقامی ہندو رہنماؤں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالت کو شامل کرتے ہیں تاکہ ہر تبدیلیٔ مذہب رضاکارانہ ہو۔”آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمان نے مباحثے کے اختتام پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ زمینی حقائق پر مبنی بیانیے تشکیل دینے اور تحقیق کے ذریعے حقیقت کو سامنے لانے کے لیے کوشاں ہے۔ انہوں نے مذہبی برادریوں پر زور دیا کہ وہ غلط فہمیوں کو دور کرنے اور عدم مساوات کے خاتمے کے لیے باہمی تعاون کو فروغ دیں۔ ان کے مطابق، “صرف باہمی احترام اور تعاون پر مبنی ماحول ہی حقوق کی فراہمی اور صحت مند معاشرے کی تشکیل کو یقینی بنا سکتا ہے۔” اس گول میز مباحثے کے دیگر شرکاء میں پروفیسر ڈاکٹر شہزاد اقبال شام، پروفیسر ڈاکٹر مستفیض احمد علوی، محمد سہیل ملک، علیزہ محفوظ، خدیجہ زاہد، ڈاکٹر غزالہ غالب، ڈاکٹر ظہیر بہرام، احسان ملک، ڈاکٹر عبدالفرید بروہی، ڈاکٹر ماجد حسین اور ڈاکٹر عثمان علی شیخ شامل تھے۔