کچہری
میاں منیر احمد
فیصل آباد سے ڈجکوٹ کی جانب کچی پکی پک ڈنڈیوں پر ایک گاؤں پھرالہ ہے‘ جماعت اسلامی کے دوسرے امیر میاں طفیل محمد کے بزرگ اس گاؤں کی مٹی کی پہچان ہیں‘ درجنوں بار اس گاؤں میں جانے کا اتفاق ہوا‘ قبلہ میاں صاحب کے والد محترم کی بھی زیارت کا موقع ملا‘ ان کا ایک جملہ ابھی تک یاد ہے اور یہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ”طفیل نے ابھی تک چینی نہیں بھیجی“ میں صاحب اس وقت جماعت اسلامی کے امیر تھے‘ عالمی اسلامی تحاریک کے قائد اور عالمی مساجد کونسل کے سربراہ‘ ایک بڑی موئثر سیاسی قوت کی لگام ان کے ہاتھ میں تھی اور میاں صاحب کے والد محترم کا یہ جملہ میاں صاحب کی اپنے والد محترم سے تعلق اور عقیدت کا کھلا اظہار تھا ریاست کپورتھلہ میں 1914 میں پیدا ہوئے، میاں طفیل نے گورنمنٹ کالج، لاہور سے، طبیعیات اور ریاضی کے استاد کی حیثیت سے، 1935 میں گریجویشن کی اور 1935 میں یونیورسٹی لا ء کالج سے ایل ایل بی کی سند حاصل کی انہوں نے جالندھر میں قانونی مشق کا آغاز کیا اور ایک سال بعد شاہی ریاست کے پہلے مسلمان وکیل کی حیثیت سے اپنے آبائی گھر چلے آئے 1941 میں جب جماعت کی تشکیل ہوئی تو جماعت کے 75 بانی ممبروں میں سے ایک تھے۔مارچ 1944 میں منعقدہ پارٹی کی آل انڈیا کانفرنس میں، اس کا پہلا مستقل سکریٹری جنرل مقرر کیا گیا۔ اسی لمحے سے، وہ ہمیشہ پارٹی کے سربراہ سید ابواللہ مودودی کے ساتھ رہتے تھے۔مختلف حکومتوں کے دوران قید کی مدت کے علاوہ، انہوں نے 1965 تک جماعت اسلامی کے سکرٹری جنرل کی حیثیت سے کام کیا۔ 1966 سے 1972 تک، انہوں نے مغربی پاکستان پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے کام کیا اور جب سید مودودی نے 1972 میں امیر کے عہدے سے استعفیٰ دیا تو، وہ پانچ سال کے لئے اس عہدے پر منتخب ہوئے۔. وہ مختلف جماعتوں کے ان نو رہنماؤں میں سے ایک تھے جن پر ایوب حکومت کے دوران سرکاری راز ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا گیا تھا۔1965 میں، جنرل ایوب کے خلاف مشترکہ اپوزیشن قائم ہوئی تو اس کے مرکزی قائدین کی صف میں شامل رہے انہوں نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی میں اپنی جماعت کی نمائندگی کی۔جماعت نے، ان کی سربراہی میں، 1971 کے جنگ کے دوران، خاص طور پر مشرقی پاکستان میں، فوج کے ساتھ نوجوان نسل کی البدر اور اشمس کھڑی کرنے میں بنیادی کردارادا کیا‘جماعت اسلامی کے سابق امیر میاں طفیل محمد، 95 سال کی عمر میں راہ حق میں صرف کرکے‘ قافلہ سخت جان کی قیادت کا منصب اور ذمہ داری نبھانے کے بعد اللہ کے حضور پیش ہوئے ان کی اولاد میں آٹھ بیٹیاں اور چار بیٹے ہیں۔میاں طفیل محمد 15 سال (1972-87) جماعت کے امیر رہے‘ مارت سے قبل وہ مولانا سید مودودی کے قابل اعتماد قیم بھی رہے‘ جب انہیں جماعت اسلامی کی امارت کی ذمہ داری ملی تو اس وقت ملک ایک سنگین سیاسی بحران کا شکار تھا‘ سانحہ ڈھاکا ابھی تازہ تازہ تھا‘ اور جناب ماہر القادری کی نظم کے یہ اشعار کہ ”یہ وطن مجھے آدھا گوارا نہیں“ میاں طفیل محمد کی تحریک میں شامل ہر نوجوان کے دل پر تیر کی طرح چبھ رہا تھا‘ بھٹو‘ جسے میاں صاحب اپنی گفتگو میں ”پٹو“ کہتے تھے‘ کا خون آشام دور بچ جانے جانے والے آدھے ملک کے لیے الگ مصیبت تھی‘ بنگلہ دیش نا منظور تحریک‘ میاں صاحب کی روحانی قیادت کے سایے میں چلی‘ جاوید ہاشمی‘ سعید سلیمی‘ مشاہد للہ خان‘ لیاقت بلوچ‘ نسیم الرحمن(عمران خان حکومت کے صحت کے نظام کے خالق) غرض بیسیوں اور سینکڑوں نوجوان اس تحریک کا حصہ تھے‘ اسی دور میں ڈاکٹر نذیر احمد شہید ہوئے‘ خواجہ رفیق قتل ہوئے‘ اور ۳۷۹۱ کا دستور بھی میاں صاحب کی امارت کے دور میں ہی بنا‘۶۷۹۱ء میں بھٹو حکومت کے خلاف اپوزیشن اتحاد پاکستان قومی اتحاد کی تشکیل ہوئی تو جماعت اسلامی ان کی قیادت میں اس اتحاد میں شامل ہوئی‘ اتحاد کی سیکرٹری شپ جماعت اسلامی کے حصے میں آئی‘ پہلے پیر محمد اشرف اور بعد میں پروفیسر غفور احمد اس اتحاد کے سیکرٹری جنرل بنے‘ ۷۷۹۱ کے انتخابات کے نتائج تسلیم نہیں کیے گئے بلکہ صوبائی انتخاب کا بائی کاٹ کیا گیا تھا‘ بھٹو پی این اے مزاکرات میں حتمی شرائط طے کیے جانے کے بعد دستاویزات پر دستخط سے پہلے ہی جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا‘ میاں طفیل محمد جنرل ضیاء الحق کے اسلامی نظام کے نفاذ کی کوششوں کی بڑے ہامی تھے‘ اور۵۸۹۱ میں ضیاء الحق کے ریفرنڈم کی بھی حمائت کی‘ 1987 میں، صحت کی خرابی کے باعث وہ جماعت اسلامی کی امارت کی ذمہ داری سے سبکدوش ہوئے اور علم قاضی حسین احمد کے حوالے کیا‘میاں طفیل محمد درویش صفت انسان تھے‘ امارت کی ذمہ داری سے الگ ہوجانے کے بعد خود کومنصورہ میں اداریہ معارف اسلامیہ کے تحقیقی کام تک ہی محدود کردیا۔سید مودودی اور امین احسن اصلاحی کے مشترکہ مصنف، کشف المحجوب اور ‘اسلام اور اس کی ضروریات کی طرف دعوت’ کا ترجمہ، ان کے نمایاں کام ہیں میاں طفیل محمد سید ابو اعلی مودودی اور امین احسن اصلاحی کے ساتھ متعدد کتب کے مشترکہ مصنف بھی رہے کشف المعجوب‘(ترجمہ) دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات ان کی زندگی ان کی کتب ہیں ان کی زندگی پر بھی متعدد کتب لکھی گئی ہیں 7 جون 2009 کو، انہیں دماغی ہیمرج کا سامنا کرنا پڑا وہ 2 ہفتوں تک کوما میں رہنے کے بعد، 25 جون 2009 کو 95 سال کی عمر میں دار فانی سے کوچ کرگئے جماعت اسلامی کے 75 بانی ارکان میں سے ایک رکن کی حیثیت سے، انہیں جماعت اسلامی کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا
