اپوزیشن کی کُل جماعتی کانفرنس کا آغاز

Media player logo

اپوزیشن کی جماعتیں حکومت کےخلاف متحد ہو گئیں، پاکستان پیپلز پارٹی کی میزبانی میں اپوزیشن کی کُل جماعتی کانفرنس کا آغاز ہو گیا۔

آل پارٹیز کانفرنس کی ابتداء میں مسلم لیگ نون کے صدر و اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے اپنے بھائی میاں نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کی اے پی سی میں ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کا خیر مقدم کیا۔

اپوزیشن کی اے پی سی سے ابتدائی خطاب کرتے ہوئے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ اے پی سی کے خلاف حکومت جو ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے یہی ہماری کامیابی ہے۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ اے پی سی کے شرکاء کو خوش آمدید کہتا ہوں، میری نظر میں اے پی سی بہت پہلے ہونی چاہیے تھی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت جو ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، یہ ان میں کامیاب نہیں ہو گی، لوگ ہمیں سن رہے ہیں، چاہے کتنی ہی پابندیاں لگائی جائیں۔

آصف زرداری نے کہا کہ خوشی ہے کہ ہماری بیٹی مریم نواز بھی یہاں ہیں، مریم قوم کی بیٹی ہیں، انہوں نے بہت تکلیفیں برداشت کی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم آئین کے گرد دیوار ہے جس سے کوئی آئین کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا، اے پی سی کی کامیابی کا سہرا آپ سب کے سر ہے، ہم نے دیکھا انہوں نے کیا تکلیف برداشت کی، ہم سمجھ سکتے ہیں۔

سابق صدر نے کہا کہ سمجھ سکتا ہوں کہ ان درندوں کی وجہ سے کس تکلیف سے وقت گزارا ہوگا، بی بی نے میاں صاحب کے ساتھ میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس اے پی سی کے بعد میں پہلا بندہ ہی جیل میں ہوں گا، نہیں لگتا کہ ان کا جمہوری اداروں کو بچانے کا ارادہ ہے، دوست اس اے پی سی میں ایسا لائحہ عمل مرتب کریں جس سے ہم جمہوریت کو آگے بڑھا سکیں۔

آصف زرداری کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم سارے پاکستان کے ساتھ مل کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں، ہم صرف حکومت گرانے نہیں آئے، ہم نے پاکستان بچانا ہے، ہم جیتیں گے، ہم اس حکومت کو نکال کر جمہوریت بحال کر کے رہیں گے۔

APC سے نواز شریف کا خطاب

سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وطن سے دور ہوتے ہوئے جانتا ہوں کہ وطنِ عزیز کن مشکلات سے دوچار ہے، میں اسے فیصلہ کن موڑ سمجھتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ایک جمہوری ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مصلحت چھوڑ کر فیصلے کریں، آج نہیں تو کب کریں گے، مولانا کی سوچ سے میں متفق ہوں، پاکستان کو جمہوری نظام سے مسلسل محروم رکھا گیا، جمہوریت کی روح عوام کی رائے ہوتی ہے، ملک کا نظام وہ لوگ چلائیں جنہیں لوگ ووٹ کے ذریعے حق دیں۔

نواز شریف کا کہنا ہے کہ آئین کے مطابق جمہوری نظام کی بنیاد عوام کی رائے ہے، جب ووٹ کی عزت کو پامال کیا جاتا ہے تو جمہوری عمل بے معنی ہو جاتا ہے، انتخابی عمل سے قبل یہ طے کرلیا جاتا ہے کہ کس کو ہرانا کس کو جتانا ہے، کس کس طرح سے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے، مینڈیٹ چوری کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ایسے تجربات کی لیبارٹری بنا کر رکھ دیا گیا ہے، اگر کوئی حکومت بن بھی گئی تو اسے پہلے بے اثر، پھر فارغ کر دیا جاتا ہے، بچے بچے کی زبان پر ہے کہ ایک بار بھی منتخب وزیرِ اعظم کو مدت پوری نہیں کرنےدی گئی۔

سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ ووٹ سے بنا کوئی وزیرِ اعظم قتل ہوا، کوئی پھانسی چڑھا اور کوئی غدار قرار دیا گیا، منتخب وزیرِ اعظم کی سزا ختم ہونے کو آ ہی نہیں رہی، یہ سزا عوام کو مل رہی ہے۔

نوازشریف کا کہنا ہے کہ یہاں مارشل لاء ہوتا ہے یا متوازی حکومت قائم ہو جاتی ہے، یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ یہاں ریاست کے اندر ریاست ہے، معاملہ ریاست کے اندر سے نکل کر ریاست کے اوپر چلا جاتا ہے، عالمی برادری میں ہماری ساکھ ختم ہو کر رہ گئی ہے، نتائج تبدیل نہ کیئے جاتے تو بے ساکھی پر کھڑی یہ حکومت وجود میں نہ آتی۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات ہائی جیک کرنا آئین شکنی ہے، عوام کے حقوق پر ڈاکا ڈالنا سنگین جرم ہے، انتخابات میں گھنٹوں آر ٹی ایس کیوں بند رہا؟ انتخابات میں دھاندلی کس کے کہنے پر کی گئی؟ اس کا سابق چیف الیکشن کمشنر اور سیکریٹری کو جواب دینا ہو گا، جو دھاندلی کے ذمے دار ہیں انہیں حساب دینا ہوگا۔

سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ اس نااہل حکومت نے پاکستان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے، ایک کروڑ نوکریوں کا جھانسہ دینے والوں نے لوگوں کا روزگار چھین لیا، سی پیک کنفوژن کا شکار ہے، کوئی ایک ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کیا گیا، اگر پاکستان میں ووٹ کو عزت نہ ملی تو ملک مفلوج ہی رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ ملک بے امنی اور افراتفری کا گڑھ بن چکا ہے، پاکستان کی خارجہ پالیسی بنانے کا اختیار عوامی نمائندے کے پاس ہونا چاہیے، ہم کبھی ایف اے ٹی ایف، کبھی کسی اور فورم میں کھڑے جواب دے رہے ہوتے ہیں، ایک غیر مقبول کٹھ پتلی حکومت کو دیکھ کر بھارت نے کشمیر کو اپنا حصہ بنا لیا۔

نواز شریف نے کہا کہ کیوں آج دنیا ہماری بات سننے کو تیار نہیں؟ کیوں ہم تنہائی کا شکار ہیں؟ شاہ محمود قریشی نے بیانات دیئے جس سے سعودی عرب کی دل شکنی ہوئی، ہمیں او آئی سی کو مضبوط کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک کے ساتھ پشاور بی آر ٹی جیسا سلوک ہو رہا ہے، نیب کے کردار کا جائزہ لینا ضروری ہے، جاوید اقبال عہدے کا نازیبا استعمال کرتے پکڑا جاتا ہے لیکن ایکشن نہیں ہوتا، یہ شخص ڈھٹائی سے عہدے پر براجمان ہے۔

میاں نواز شریف نے کہا کہ بہت جلد ایک دن سب کا یوم حساب آئے گا، نیب اپنا جواز کھو چکا ہے، اپوزیشن اس کا نشانہ بنی ہوئی ہے، جو نیب سے بچتا ہے اسے ایف آئی آے کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ چینی کی قیمت بڑھانے میں عمران خان کی ذات ملوث ہے، کیا نیب اسے گرفتار نہیں کرے گا؟ کیا نیب علیمہ خان کے اثاثوں کی چھان بین کرے گا؟ بنی گالہ کا گھر غیرقانونی تعمیر کیا گیا، اس کی فائل ایسے ہی بند رہے گی؟

سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن غیر ملکی فنڈنگ پر فیصلہ نہیں کرے گا؟ کیا ان سب پر کوئی فوجداری مقدمہ قائم نہیں ہوگا، بنی گالہ کی اتنی بڑی جائیداد کیسے بنی؟ کیا کوئی جے آئی ٹی نہیں بنے گی؟ عمران خان کے پاس زمان پارک گھر کیلئے پیسے کہاں سے آئے؟

میاں نواز شریف نے کہا کہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم ایک ہیں، اگر ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ کانفرنس کامیاب ہے۔

APC میں کون کون شریک؟

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری دیگر پی پی پی رہنماؤں کے ہمراہ اے پی سی میں شریک ہیں۔

قائدِ حزبِ اختلاف و صدرِ نون لیگ میاں شہباز شریف کی قیادت میں مریم نواز اور دیگر رہنماؤں پر مشتمل مسلم لیگ نون کا وفد بھی آل پارٹیز کانفرنس میں شریک ہے۔

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن بھی اسلام آباد میں ہونے والی اپوزیشن کی اے پی سی میں موجود ہیں۔

انس نورانی، محمود خان اچکزئی سمیت کئی رہنما اےپی سی میں شریک ہیں۔

آل پارٹیز کانفرنس میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، جمعیت علمائے اسلام ف کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی، بی این پی مینگل، بی این پی عوامی اور دیگر جماعتوں کے رہنما بھی شریک ہیں۔

جماعتِ اسلامی پاکستان نے اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔