بھارت نے دکھتی رگوں پر مرہم نہ رکھا تو رگیں شکست و ریخت کا باعث بن جائیں

آبادی کے لحاظ سے بھارت دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔جبکہ مجموعی طور پر یہ دنیا کا ساتواں سب سے بڑا ملک ہے۔نسلوں کے اعتبار سے سب سے پرانی اور بڑی نسل آدیواسی ہے جو شمال مشرق میں آسام سے لیکر جنوب میں کنیا کماری تک پھیلی ہوئی ہے۔اسکے بعد بڑی نسلیں دراویڈین جنوب میں اور آریا نسل گنگا کے میدانوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ آبادی کا تقریباً 79فیصد عسائی جبکہ 2فیصد سکھوں پر مشتمل ہے۔بھارت میں تقریباً845زبانیںبولی جاتی ہیں۔ہندوازم، اسلام، عسائیت، سکھ ازم، بدھ ازم، جین ازم اور یہودی ازم بڑے بڑے مذاہب ہیں۔آب ادی اور رقبے کے حساب سے اتنا بڑا ملک ہونے اور امریکہ اور یورپ کے لئے بہت بڑی منڈی ہونے کے  باوجود بھارت کی تقریباً 600ملین آبادی خط غربت سے نیچے رہنے پر مجبور ہے۔برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد جواہر لال نہرو نے بھارت کو ایک سیکولر جمہوریت بنانے میں بڑا کردار ادا کیا جسکی وجہ سے بھارتی آئین کے آغاز میں ہی سماجی انصاف اور مساوات کا تذکرہ بڑی وضاحت کے ساتھ ملتا ہے۔مہاتما گاندھی کہاکرتے تھے کہ بھارت میں سب کو اپنے مذہب پر کاربند رہنے کی آزادی ہو گی۔مہاتما گاندھی ذات پات کے ہندوفلسفے کو بھی تبدیل کرنے کی بات کرتے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندو مذہب ذات پات کی تفریق کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا۔ ہندو مذہب چار طبقات میں منقسم ہے جسمیں برھمن، کھشتری، ویش اور شودر شامل ہیں۔ برھمن طبقہ مذہبی رجحانات کا حامل، کھشتری طبقہ ایڈمنسٹریشن اور فوج سے متعلق، ویش تاجر جبکہ شودرنچلی ذات کے ہندو ٹھرے۔ان چار طبقات کے اندر 25سے30ہزار ذیلی طبقات ہیں جن میں سے ایک ذات کو “دلیت”کہا جاتا ہے جن کو چھونا بھی گناہ ہے۔دلیت ہمیشہ سے ظلم و ستم کا شکار رہے ہیں جن کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں ناانصافی کی جاتی ہے۔ اونچی ذات کے ہندوئوں کے ہاتھوں دلتوں کی ہمیشہ تذلیل ہوتی آئی ہے۔روزانہ کی بنیاد پر

ہزاروں دلتوں کو دعوت کے گھاٹ اتار دیاجاتا ہے جسکی وجہ سے بہت سے دلیت اسلام یا بدھ ازم اپنا رہے ہیں۔بی جے پی کے پاور میں آنے کے بعد نام نہاد سیکولرازم کی جگہ “ہندتوا”کی آئیڈیالوجی جگہ لے رہی ہے۔بھارت کی سب سے بڑی “دکھتی رگ”ہندوتوا کی آئیڈیالوجی ہے جو ذات پات اور مذہب کے نام پر اپنے عوام پر ظلم ڈھا رہی ہے۔سانگھ پریوار جس میں بی جے پی، وشوا ہندو پر یشد(VHF)ب بجرنگ دل(BD)اور شوسینا شامل ہیں ان سب کی جڑیں RSSیعنی راشٹریہ سوائم سیوک سانگھ کی شدت پسند جماعت سے نکلتی ہیں۔RSS-BJPکی حکومت ہندوئوں کی کھوئی ہوئی شان و شوکت واپس لانا چاہتی ہے جسکے لئے وہ دوسرے مذاہب خصوصاً اسلام کا نام و نشان مٹا دینا چاہتی ہے۔ان کے مطابق مسلمان حملہ آور تھے جنہوں نے باہر سے آکر ہندوستان پر سینکڑوں سال حکومت کی جسکا انہیں کوئی حق نہیں تھا۔گجرات، مہاراشٹر اور راجھستان جیسی ریاستیں جہاں پر بی جے پی کی واضح اکثریت ہے وہاں پر نصابی کتابوں کو دوبارہ لکھوایا جا رہا ہے تاکہ ہندوستاں میں مسلمانوں کی شان و شوکت کو کم کر کے دکھایا جائے۔اسی طرح مسلمانوں کی تاریخ اور ثقافت کو بھی نقصان پہنچانے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔بھارت کی دوسری “دکھتی رگ”وہاں کی علیحدگی پسند تحریکیں ہیں۔بھارت کی شمال مشرقی ریاستیں جنہیں “سیون سسٹر سٹیٹشــ” کہا جاتا ہے بھارت میں مقبوضہ کشمیر کے بعد سب سے متاثرہ ریاستیں ہیں جو بھارت سے علیحدگی چاہتی ہیں۔ ان ریاستوں میں منی پور، آسام، میگھا لایا، ارون چل پردیش، آسام (ULFA)دی سوشلسٹ کونسل ان ناگا لینڈ(NSC)،دی پیپلز لبریشن آرمی ان منی پور(PAL)دی مینرو نیشنل آرمی ان مینرورام (MNA)اور تری پورہ نیشنل والنٹیئرز ان تری پورہ (TNA)تقسیم برصغیر نے بعد سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں 116باغی گروپ لڑ رہے ہیں جبکہ ان میں صرف آسام میں 36گروپ بھارت کے خلاف کام کر رہے ہے۔بھارت کی اگلی”دکھتی رگ”مائوسٹ اور فکسل کی تحریکیں ہیں۔جو ریاستیں اس تحریک سے متاثر ہیں ان میںکرناٹک، چھتیس گڑھ، اوڑیسہ، آندھیرا پردیش اور مغربی بنگال شامل ہیں۔فکسل باغی بھارت کی 29میں سے13ریاستوں میں کام کر رہے ہیں۔ یہ تحریک بھارت کے 40فیصد رقبے پر کام کر رہی ہے جس سے بھارت کا 92ہزار کلو میٹر علاقہ متاثر ہے۔بھارت کے سابق وزیراعظم من موہن سنگھ اس تحریک کو بھارت کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے تھے۔بھارت کی سب سے بڑی”دکھتی رگ”مقبوضہ جموں اور کشمیر ہے جسے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370اور35-Aکے تحت خصوصی حیثیت حاصل ہے کہ یہاں پر باہر کا کوئی آدھی جائیداد نہیں خرید سکتا۔نریندر مودی کی حکومت نے 15اگست2019کو یہ دونوں آرٹیکل منسوخ کر دئیے ہیں۔اس کے علاوہ مودی حکومت نے اس علاقے کا ایک نیا نقشہ جاری کر دیا ہے اور باہر سے آنے والوں کو کشمیر کا ڈومیسائل دنیا شروع کر دیا ہے تاکہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے۔5اگست کے بعد سے کشمیر کی وادے پر ایک بد ترین لاک ڈائون اور کرفیو نافذ ہے۔بھارت کی اگلی “دکھتی رگ”پنجاب کی علیحدگی کی تحریک ہے۔1984کے آپریشن بلیو سٹار اور اسکے بعد سکھوں کے قتل عام کے بعد سے یہ تحریک چل رہی ہے۔سکھ فار جسٹس (SFJ)کی تحریک تیاری کر رہی ہے کہ 2022میں پنجاب میں ایک ایفرنڈم کر کے خالصتان کی آزاد ریاست کو وجود میں لایا جائے۔بھارت کی اگلی “دکھتی رگ”بھارت کے مسلمان ہیں۔بھارت میں مسلمان پر ظلم و ستم ہو رہا ہے۔مودی حکومت بھارت میں مسلمانوں پر حملوں اور گائو رکھشا کے بہانے مسلمانوں کے قتل عام پر توجہ نہیں دے رہی۔بھارت ایک نام نہاد سیکولر ملک ہے لیکن درحقیقت یہ ایک انتہا پسند اور معتصب ہندو ریاست ہے۔ ماہرین کے مطابق آنے والے وقت میں بھارت کے ٹوٹنے میں مسلمانوں کا ایک بڑا کردار نظر آ رہا ہے۔کہاجا رہا ہے کہ بھارت نے اگر اپنی دکھتی رگوں پر مرہم نہ رکھا اور باغیانہ عزائم رکھنے والی تحریکوں کے مسائل حل نہ کئے تو وہ وقت دور نہیں جب یہ دکھتی رگیں ناسور بن کر بھارت کو شکست و ریخت کا باعث بن جائیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں