ڈائریکٹرز کی تعیناتی بذریعہ رٹ پٹیشن نمبر 3205 چیلنج

نیشنل بینک کے شئیر ہولڈر اور ریٹائرڈ ملازم فضل رحیم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چئیرمین اور تمام ڈائریکٹرز کی تعیناتی بذریعہ رٹ پٹیشن نمبر 3205 چیلنج کر دی ہے۔

درخواست گزار کے مطابق چئیرمین اور ڈائریکٹرز کی تعیناتی پی ایس سی رولز 2013 ، لسٹڈ کمپنیز ریگولیشنز 2017، ایسٹا کوڈ، پروڈینشل ریگولیشنز اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی ہدایات کے برعکس چئیرمین اور ڈائریکٹرز کی تعیناتی کے لیے اشتہار نہیں دیا گیا۔

درخواست گزار کے مطابق چئیرمین کی عمر 73 برس ہے اور قانون کے مطابق انکی تعیناتی سے قبل کابینہ سے انکی عمر کے بارے ریلیکسیشن لینی ضروری تھی۔

درخواست گزار کے مطابق چئیرمین بورڈ کی ایچ آر کمیٹی کے سربراہ کے طور پر تقرری، سٹیٹ بینک کے پروڈینشل ریگولیشنز کی خلاف ورزی ہے۔ چیرمین کو ذاتی استعمال کے لیے بینک کی گاڑی اور دیگر سہولیات کی فراہمی، انکے لیے دفتر کی تزئین و آرائش اور انکو ذاتی سٹاف مہیا کرنا نہ صرف پروڈینشل ریگولیشنز بلک بینک بائی لاء اور پی ایس سی رولز کی خلاف ورزی ہے۔

سپریم کورٹ پاکستان کے 2012 میں اشرف ٹوانہ کیس، 2019 میں عطا الحق قاسمی کیس اور ستمبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے پی ٹی وی کیس کے فیصلے کی نظیریں پیش کرتے ہوئے یہ استعداء کی گئی ہے کہ چیرمین اور تمام بورڈ کی تعیناتی غير قانونی قرار دی جائے اور ان سے بینک سے لی گئی مراعات اور رقوم کی وصولی کی جائے۔

عدالت نے کیس کی ابتدائی سماعت کے بعد فریقین کو پری ایڈمیشن نوٹس جاری کر دیئے۔