غیر ذمہ دارانہ بیان نے پاکستان کو بحیثیت ریا ست ایک نا قابل تلافی نقصان

پچھلے ہفتے سابق سپیکر قومی اسمبلی اور میاں نواز شریف کے وفادار ساتھی ایازصادق نے ایک غیر ضروری بیان میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ فروری 2019میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جھڑپوں کے دوران کیا ہوا تھا۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے موصوف فرماتے ہیں کہ پاکستان نے بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو اس لئے عجلت میں رہا کیا تھا کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو بھارت نے پاکستان پر حملہ کرنے کی پوری تیاری کر لی تھی۔جناب یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ بات بتاتے ہوئے وزیر خارجہ کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ایاز صادق کی بے تکی گفتگو کو حقائق سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ایاز صادق اس وقت جوائنٹ پارلیمانی سیکیو رٹی بریفنگ میں شامل تھے اور ان کی طرف سے ایسے غیر ذمہ دارانہ بیان نے پاکستان کو بحیثیت ریا ست ایک نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔اس بیان نے پاکستان ائیر فورس کی شاندار کامیابی پر پانی پھیرنے کاکام کیا ہے۔اس بیان نے پاک فوج کی بھرپور تیاریوں اور بہادری کی نفی کی ہے۔اس بیان نے دراصل بھارت کی وہ مدد کی ہے جسکا وہ بڑی شدت سے انتظار کر رہا تھا۔اس بیان نے بھارت کو وہ شرمندگی مٹانے میں مدد دی ہے جو اسے اپنی ائیر فورس کی دن دہیاڑے شکست کی صورت میں اٹھانا پڑ ی تھی۔ایاز صادق کے اس بیان کے بعد بھارتی میڈیا نے طوفان سر پر اٹھا لیا ہے کہ ایک ذمہ دار سیاستدان جو اس وقت ایک اہم پوسٹ پر تعینات تھا اس نے یہ اعتراف کیا ہے کہ پاک فوج نے بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ابھی نندن کو اس لئے رہا کر دیا کہ کہیں بھارت پاکستان پر حملہ نہ کر دے۔ایاز صادق نے بھارتی میڈیا کو وہ خوشی میسر کر دی ہے جسکی انہیں تمنا تھی اور

 مسلم لیگ “ن”نے ایک دفعہ پھر در پردہ بھارت کی مدد کر دی ہے۔ اسکے بعدجب پاکستانی میڈیا کا دبائو آیا تو ایاز صادق نے اپنے بیان میں دربدل کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ میرا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔میں نے تو صرف شاہ محمود قریشی کی بات کی تھی۔انہوں نے کہا کہ میرے بیان میں پاک آرمی یا اسکی لیڈرشپ کے بارے میں کوئی منفی بات نہیں کی گئی۔بہرحال ایاز صادق نے نہ تو اپنا بیان واپس لیا اور نہ ہی اپنے اس لایعنی بیان پر معذرت کی۔نہ ہی مسلم لیگ “ن”کے کسی ذمہ دار نے ایاز صادق کے اس بیان سے لا تعلقی کا اظہار کیا جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ نواز شریف کے حالیہ بیانات اور تقاریر کا ہی حصہ ہے جس میں وہ فوج مخالف پراپیگنڈہ کر رہے ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وقت سٹیج پر موجود پی ڈی ایم کے دیگر رہنمائوں میں سے بھی کسی نے ایاز صادق کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان کی مخالفت نہیں حالانکہ ایاز صادق نے براہ راست پاکستان اور پاک فوج کی عزت و ناموس پر حملہ کیا تھا۔اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ پی ڈی ایم کا اپنا ایجنڈا بھی پاکستان اور پاک فوج کی مخالفت پر مبنی ہے کیونکہ پی ڈی ایم یہ بات کہہ چکی ہے کہ ان کا ٹارگٹ عمران خان یا تحریک انصاف نہیں ہے بلکہ ان کا ہدف وہ قوتیں ہیں جو عمران خان کو لیکر آئی ہیں۔کیا یہ وہی قوتیں نہیں ہیں جنہوں نے بھارتی فضائیہ کا طیا رہ ما ر گرایا تھا۔جنہوں نے ابھی نندن کو گرفتار کیا تھا اور جنہوں نے کلبھوشن یادیو کو گرفتار کر رکھا ہے۔ایاز صادق کے اس بیان پر بہت شور برپا ہے۔شہباز گل اور فواد چو ہدری مطالبہ کر رہے ہیں کہ ایاز صادق پر غداری کا مقدمہ چلنا چاہیے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ پہلی دفعہ نہیں جب مسلم لیگ “ن”کی قیادت نے پاکستان مخالف بیانیے کو ہوا دی ہے۔ان واقعات کا سلسلہ ڈان لیکس سے شروع ہوتا ہے جسے پاک آرمی نے قومی مفاد کی خاطر ہضم کر لیا تھا۔اسکے بعد تقریباً یہی کہانی نواز شریف نے ملتان کے ایک انٹرویو میں دہرائی جس میں نواز شریف نے یہ الزام لگایا کہ پاکستان سرحد پار دہشت گردی میں ملوث ہوتا ہے۔اس انٹرویو کو کلبھوشن یادیو کے وکیل نے انٹرنیشنل کو رٹ آف جسٹس میں ثبوت کے طور پر پیش کیا تھا۔اس کے بعد نواز شریف نے اعتراف کیا کہ پاکستان نے بلو چستان میں گرے ہوئے امریکی میزائل چرا کر ان کی ریوس انجیئنرنگ کر کے اپنے میزائل بنائے۔ گوجرانوالہ اور کو ئٹہ کے جلسوں میں نواز شریف نے براہ راست آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ پر الزام لگایا کہ انہوں نے الیکشن میں دھاندلی کروا کر عمران خان کو پاور میں لانے میں اپنا کردار ادا کیا۔نواز شریف کے ان بیانات کو بھارتی میڈیا میں بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا گیا اور آخر میں جلتی پر تیل کے طور پر ایاز صادق کا یہ بیان سامنے آگیا ہے جس نے پاکستان کے لئے شرمندگی کے سارے سامان کر دئیے ہیں۔ہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ وہ لوگ جو پاکستان اور سیکیورٹی اداروں پر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت زہر اگلتے ہیں انہیں غدار نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔کیا انہیں جمہوریت پسند لوگ کہا جائے جو قائد اعظم کے مزار پر جا کر ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگاتے ہیں۔ کیا انہیں وہ لوگ کہا جائے جو آزادی اظہار پر یقین رکھتے ہیں۔کیا یہ وہ لوگ نہیں جو اپنی ہی فوج کے خلاف ہیں اور فوج کی جڑیں کاٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔تحریک انصاف کی کمزور حکومت ایاز صادق جیسے لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑسکتی۔بالکل اسی طرح جیسے یہ کمزور حکومت میا ں نواز شریف،  اویس نورانی اور کیپٹن صفدر کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔کیا ہم پاکستان مخالف اس ٹولے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے جو جمہوریت پسندی کی آڑ میں پاکستان کے دشمنوں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ کیا ہمیں ان نام نہاد جمہوریت پسندوں کو کھلا چھوڑ دینا چاہیے؟۔                                                                                                      

اپنا تبصرہ لکھیں