کس کو وطن میں ہوگا‘آہ اب میرا انتظار میاں منیر احمد

چلتی پھتی ہوئی آنکھوں سے اذان دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے‘ماں دیکھی ہے
انسان کی سیرت کی تعمیر اور کردار سازی میں ماں کا بنیادی کردار ہے جس طرح اساتذہ قوم کے معمار ہیں‘ اسی طرح ماں انسان کی معمار ہے‘استاد روحانی باپ ہوتاہے‘ اساتذہ شاگردوں کی سیرت سنوارتے ہیں اور ماں بچوں کی سیرت سنوارتی ہے، انہیں مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بنایا جاتا ہے اساتذہ نے اپنے علم کے ذریعے عقل کو علم سے روشن کرنے کا ہنر سکھایا، اور ماں بچوں کو گود میں لیے پھرتی ہے انہیں گرمی اور سردی سے بچاتی ہے اساتذہ شاگردوں کو محقق، ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان، سیاستدان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارہائے منصبی پر فائز کرتے ہیں اور ماں انہیں انسان بناتی ہے اساتذہ شاگردوں کو ربّ رحمن سے آشنا کرتے ہیں دنیا میں انسانیت سے محبت، امن،اور اخوت کا پرچار کرتے، اور جہالت کے اندھیروں کو علم کی روشنی سے ختم اور علم کی قندیلوں سے قندیلیں روشن ومنور کرتے چلے آئے ہیں اساتذہ جس رب کی طرف بلاتے ہیں اسی رب نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھی ہے بلاشبہ ماں باپ اور استاد انسانوں کی سیرت سنوارتے اور انہیں نکھارتے ہیں‘ ابھی کل ہی یوم استاد منایا گیا‘ اور گزشتے ہفتے ہی پیارے دوست‘ بھائی جیسے دوست صدیق ساجد کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا‘ ان کی والدہ کے انتقال کی خبر ملی تو دل بہت ہی بے چین ہوا‘ یہ بات میرے علم میں تھی کہ ان کی والدہ گھر کے ہر کام کے لیے انہیں یاد کرتی تھیں‘ ان سے مشورہ کرتی تھیں‘ ان کی رائے لیتی تھیں یوم استاد پر جہاں اپنے اساتذہ کے لیے کلمات لکھنے کی توفیق ملی وہیں صدیق ساجد کی والدہ محترمہ کے لیے دل سے دعاء نکلی‘ ہمارے وہ دوست جن کے والدین حیات ہیں‘ اللہ انہیں اور ان کے والدین کو صحت سلامتی دے اور جن کے والدین دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں‘ انہیں صبر دے اور مرحومین کو جنت عطاء کرے آمین‘ صدیق ساجد سے آج سے نہیں‘ کم و بیش بیس پچیس سال کا تعلق اور ساتھ ہے‘ میڈیا کے ایک ادارے میں اکٹھے کام بھی کیا‘ باہمی ادب اور احترام بھی رہا لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ ان کی والدہ محترمہ کا تعلق شیخو پورہ سے ہے‘ یہ شہر تو میرا آبائی شہر ہے‘ میری جائے پیدائش بھی ہے‘ تعلق پہلے بھی بہت مضبوط تھا لیکن اس نسبت سے اب صدیق ساجد سے تعلق ذاتی سا بھی بن گیا ہے ابھی ایک ماہ ہوا‘ ہماری بہت ہی پیاری کزن رضیہ دنیا سے رخصت ہوئیں ہیں‘ جنازے کے لیے شیخو پورہ جانا ہوا تھا‘ جب بھی شیخوپورہ جاتا ہوں‘ بچپن یاد آجاتا ہے اب جاؤں گا تو صدیق ساجد کی والدہ محترمہ بھی یاد آئیں گی یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ والدین کی حقیقی قدر و منزلت ان کے کھو جانے کے بعد ہوتی ہے لیکن میں خود کو نہائت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ اللہ نے مجھے اپنی زندگی میں ماں باپ سے معافی مانگنے کی توفیق دی ہے اور یہی لمحہ میری زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے اور اسی لمحے کی روحانی طاقت نے ہی مجھے آج تک والدین کے کھو جانے پر لڑکھرانے سے بچایا ہوا ہے اور کھڑا کیا ہوا ہے اسلام نے معلم اور والدین کو بے حد عزت و احترام عطا کیا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے قرآن مجید فرقان حمید میں نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے۔ خود خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے“۔خالق کائنات نے انسانیت کی رہنمائی اور تعلیم کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا ئکرام کو بھیجا، ہر نبی شریعت کامعلّم ہونے کے ساتھ ساتھ کسی ایک فن کا ماہر بھی ہوتا تھاجیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام دنیا میں زراعت، صنعت کے معلّم اوّل تھے،کلام کو ضبط تحریر میں لانے کا علم سب سے پہلے حضرت ادریس علیہ السلام نے ایجاد کیا،حضرت نوح علیہ السلام نے لکڑی سے چیزیں بنانے کا علم متعارف کروایا،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے علم مناظرہ اور حضرت یوسف علیہ السلام نے علم تعبیر کی بنیاد ڈالی۔خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے معلّم کو انسانوں میں بہترین شخصیت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایاتم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سیکھائے اس سے ظاہرہوتا ہے کہ اسلام میں معلم کا مقام و مرتبہ بہت ہی اعلی و ارفع ہے اسلام نے استاد کو معلم و مربی ہونے کی وجہ سے روحانی باپ کا درجہ عطا کیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول استاد کی عظمت کی غمازی کرتا ہے کہ ”جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا میں اس کا غلام ہوں، وہ چاہے مجھے بیچے، آزاد کرے یا غلام بناکررکھے“ پانچ اکتوبر کا دن دنیا بھر میں یوم استاد کے طور پر منایا جاتا ہے یہ دن ہمارے لئے غور کرنے کا دن ہے کہ ہم اپنے کردار سے وہ تبدیلی لائیں کہ جس کے لیے ہماری ماں نے ہمیں تربیت دی تھی‘ یہ بات لکھتے ہوئے کھلی گواہی دینے کو دل کرتا ہے کہخدا کی قسم ماں سے ذیادہ کوئی اولاد کو پیار نہیں کر سکتا اور باپ سے ذیادہ کوئی خیال نہیں رکھ سکتا‘ ابھی ایک ماہ ہوا‘ ہماری بہت ہی پیاری کزن رضیہ دنیا سے رخصت ہوئیں ہیں‘ ان کے صاحب ذادے بلال مبارک‘ اپنی فیملی کے ساتھ یو اے ای گئے ہیں‘ ساتھ چھوٹی اسماء بھی ہے‘ اسماء اسپیشل بچی ہے‘ اس بار جب بلا ل گئے ہیں تو انہیں یو اے ای پہنچ کر اقبال یاد آیا ہوگا‘ مجھے بھی اپنی والدہ کو جنت میں بھجوائے ہوئے آج بیس سال ہونے کو ہیں‘ جب بھی گھر سے اسلام آباد آتا تو فون آتا کہ کاکا اسلام آباد پہنچ گئے ہو‘ میری والدہ مجھے کاکا کہتی تھیں‘ مگر بیس سال ہوگئے پھر ایسا فون نہیں آیا‘ میرے بلال مبارک اور صدیق ساجد بھی آج اسی کیفیت سے گزر رہے ہیں
اقبال نے اپنی والدہ کے لیے نظم لکھی تو کہا
کس کو وطن میں ہوگا‘آہ اب میرا انتظار
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار
عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی
میں تیرے خدمت کے قابل جب ہوا‘ تو چل بسی
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ‘ اس گھر کی نگہبانی کرے