یوم یک جہتی کشمیر اور پروفیسر الیف الدین ترابی

جاوید الرحمن ترابی

آج پوری ملت اسلامیہ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے حق میں ان کی جدوجہد اور تحریک کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کر رہی ہے، یہ دن منانے کا اعلان مجاہد ملت محترم جناب قاضی حسین احمد نے کیا تھا اور اور اس کا مشورہ جناب پروفیسر الیف الدین ترابی نے انہیں دیا تھا، یہ دونوں بزرگ شخصیات آج اس دنیا میں نہیں ہیں، اللہ کے حضور پیش ہوچکی ہیں، تاہم ان کے فیصلوں کی خوشبو آج پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور ہر سال پانچ فروری ملت اسلامیہ کشمیری عوام کے ساتھ یک جہتی کا مناتی ہے، اسی مناسبت سے آج دنیا بھر کی طرح پاکستان اور آزاد کشمیر میں بھی مقبوضہ کشمیر کے مظلوم،مگر بہادر اور جری عوام کے ساتھ یکجہتی کا دن منایا جا رہا ہے۔اس دن کو منانے کا مقصد دنیائے عالم کے ضمیر کو جھنجھوڑنا اور بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں غاصبانہ قبضے اور مظالم کو بے نقاب کرنا ہے۔پچھلے چاربرسوں سے اس دن کی افادیت اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ نریندر مودی کی حکومت نے پانچ اگست2019ء سے اپنے ایک غاصبانہ اور جابرانہ اقدام کے ذریعے مقبوضہ وادی کو عملاً ایک بڑی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے،کشمیر کے عوام کی زندگی9لاکھ بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں اجیرن ہو چکی ہے،مگر آزادی کے لیے اُن کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ وہ آج بھی آزادی کا پرچم بلند کئے ہوئے ہیں اور اپنے جان و مال کی قربانی دے رہے ہیں۔آج دنیا کے کونے کونے میں کشمیریوں کے لیے مظاہرے ہوں گے، کشمیر کی آزادی،کشمیریوں کے حق ِ خودِ ارادیت اور بھارتی مظالم کے خلاف لاکھوں لوگ باہر نکلیں گے،مقصد ایک ہی ہے کہ عالمی ضمیر کو بیدار کیا جائے،جو دنیا میں چھوٹے چھوٹے واقعات پر تو جاگ جاتا ہے،مگر اُسے کشمیر میں لاکھوں افراد پر بھارت کے مظالم اور جبر نظر نہیں آتا۔جب تک کشمیریوں کو آزادی نہیں ملتی دنیا کبھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ وہ ایک مہذب اور آزاد معاشرے کی ضامن اور امین ہے۔کشمیریوں پر غاصب فوجیوں کی طرف سے روا رکھے جانے والا ظلم دنیا کے ماتھے پر ابھرنے والا ایسا ناسور ہے،جس نے دنیا کی خوبصورتی کو مسخ کر رکھا ہے۔ ارضِ کشمیر پر بہنے والا کشمیریوں کا لہو عام انسانیت کے ضمیر کو گذشتہ سات دہائیوں سے جھنجھوڑ رہا ہے، مگر آزادی، حقوقِ انسانی اور انسانی و تہذیبی اقدار کی عظمت کا دعویٰ کرنے والے بڑے ممالک بشمول امریکہ کو دنیا میں دوسری تمام جگہوں پر ظلم نظر آتا ہے،لیکن کشمیر میں ہونے والے ظلم پر سے وہ ہمیشہ چشم پوشی کرتے ہیں۔اُن کے تمام فیصلے خود غرضی،اور مصلحت کی چادر اوڑھ کر وقتی اور مفاداتی ضرورتوں کے تابع ہو جاتے ہیں، مگر کیا یہ صورتِ حال تادیر برقرار رہ سکتی ہے؟ کیا کشمیریوں کو ہمیشہ کے لیے آزادی سے محروم رکھا جا سکتا ہے،ان کشمیریوں کو جن کے سینے میں سوائے آزادی کی تڑپ کے اور کوئی جذبہ ہی موجود نہیں۔ کیا دنیا، سب سے بڑی جمہوریہ ہونے کے دعویدار ملک سے اپنے معاشی مفادات کے روابط برقرار رکھنے کی اتنی بھاری قیمت اسی طرح چکاتی رہے گی کہ ہر سال بھارت کے مظالم بڑھتے جائیں، کشمیریوں کے لاشے اٹھتے رہیں،مگر وہ کچھ نہ کر سکے۔ تاریخ تو یہی بتاتی ہے جبر کی قوت کتنی ہی طاقتور ہو اُسے بہرحال نیست و نابود ہونا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارت کو اس کا سامنا آج نہیں تو کل کرنا پڑے گا۔مقبوضہ کشمیر کے عوام نے اپنی ثابت قدمی سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اُن کی جدوجہد وقتی نہیں،بلکہ اُن کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔دنیا کے کسی اور خطے میں اِس قدر صبر آزما اور تسلسل کے ساتھ جاری رہنے والی جدوجہد ِ آزادی کا کوئی دوسرا حوالہ نظر نہیں آتا۔اتنی طویل اور کشت و خون میں ڈوبی ہوئی جدوجہد کے بعد بھی اگرکوئی سمجھتا ہے کہ وقت کی گرد کشمیریوں کے دِل سے آزادی کی تڑپ ختم کر ڈالے گی تو یہ اُس کی خام خیالی، تعصب اور پرلے درجے کی غلط فہمی ہے۔دنیا کا کوئی اور خطہ ایسا نہیں، جہاں 9لاکھ سے زیادہ فوج صرف اس مقصد کے لیے کئی دہائیوں سے موجود ہو کہ وہاں کے رہنے والوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق اور حق خودِ ارادیت سے محروم رکھنا ہے۔یہ بات اُن تمام عالمی اداروں اور ”چودھریوں“ کے لیے بھی ایک کھلا چیلنج ہے، جو دنیا میں امن کے دعویدار ہیں، جو دنیا کے مختلف خطوں میں رونما ہونے والی یورشوں میں بے دھڑک کود پڑتے ہیں۔یو این او کی فوج اتار دیتے ہیں،عوام کے حقوق کا نعرہ لگا کر ملکوں کے ٹکڑے کرتے ہیں، حکومتوں کا خاتمہ کرنا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں،مگر مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔انہیں جب سات دہائیوں پہلے پاس کی جانے والی اقوام متحدہ کی قرارداد یاد دلائی جاتی ہے،جس میں مسئلہ کشمیر کا حل استصواب رائے سے نکالنے کی منظوری دی گئی تو انہیں پراسرار طور پر سانپ سونگھ جاتا ہے۔امریکی صدر جوبائیڈن کو بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی عبادت گاہوں پر حملے تو نظر آ جاتے ہیں، لیکن جو سلسلہ سات دہائیوں سے بھی زیادہ پرانا ہے اُس پر وہ اپنی زبان بند رکھتے ہیں۔ بھارت خود کو دنیا میں جمہوریت کا چیمپئن کہلوانے کے لیے جمہوریہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، مگر اُس کے یہ دعوے اس ہندو ذہنیت اور تعصب کے ملبے میں دب کر رہ جاتے ہیں،جو ایک غلاظت کی صورت میں پورے بھارت میں عمومی طور پر اور مقبوضہ کشمیر میں خصوصی طور پر بکھرا ہوا ہے۔ دیکھا جائے تو عالمی ادارے بھی محاذ بنائے کھڑے ہیں۔اُن قربانیوں سے مجرمانہ غفلت برتی جا رہی ہے،جو مقبوضہ کشمیر کے عوام پچھلی کئی دہائیوں سے دے رہے ہیں،مگر کیا بھارت اور عالمی بڑی طاقتوں کا یہ گڑھ جوڑ اس جدوجہد آزادی کو کامیاب ہونے سے روک سکتا ہے،جو کشمیری نوجوان، بوڑھے، عورتیں حتیٰ کہ بچے بھی اپنے لہو سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔کیا سمندر کی تند و تیز لہروں کے آگے خش و خاشاک کا بند باندھا جا سکتا ہے۔ کشمیری پاکستان کو اپنی منزل سمجھتے ہیں، اور پاکستانیوں کے لیے بھی کشمیر شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔کشمیر کی آزادی کے لئے آواز بلند کرنا پاکستان کی ریاستی پالیسی ہے۔پاکستان نے ہمیشہ بھارت کو یہ پیشکش کی ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالا جائے۔اب بھی بھارت نے مذاکرات کے دروازے بند کئے ہوئے ہیں، حالانکہ شملہ معاہدے کے تحت دونوں ممالک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیر سمیت ہر مسئلے کا حل مل بیٹھ کے تلاش کریں۔بھارت کو یہ سمجھنا چاہئے کہ کشمیر کی وجہ سے کشیدگی خطے کے مفاد میں نہیں۔ یہ مسئلہ حل ہو جائے تو یہاں ترقی و خوشحالی کا ایک نیا باب کھل سکتا ہے،دونوں ممالک نے اس تنازعے کی وجہ سے بہت کچھ کھویا ہے، بڑی قیمت چکائی ہے۔دنیا میں کئی ایسے ممالک نے جن کے درمیان اختلافات تھے ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے انہیں حل کیا،آج وہ پرامن اور ترقی یافتہ ممالک بن چکے ہیں،کیا یہ جنوبی ایشیاء کا مقدر ہے کہ وہ اپنے کروڑوں عوام کو ایک بے معنی جنگ میں الجھائے رکھے،اقوام متحدہ اور او آئی سی بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں،مگر بدقسمتی یہ ہے کہ یہ دونوں بڑے فورم مصلحتوں کا شکار ہیں جہاں تک ہماری کشمیر پالیسی کا تعلق ہے وہ بالکل واضح ہے،ہم اس کا پرامن حل چاہتے ہیں اور بھارت سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہٹ دھرمی چھوڑ کر مذاکرات کے ذریعے اس دیرینہ مسئلے کو حل کرے۔بھارت کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ کشمیر نے ایک دن آزاد ہونا ہے، اس حقیقت کو وہ جتنی جلد تسلیم کر لے گا اتنا ہی اس خطے اور دونوں ممالک کے لیے بہتر ہو گا۔