رمضان شریف کا آغاز ہو یا اختتام یا اعلانِ عید، کسی کو واضح تاریخ کا معلوم نہیں ہوتا۔ یوں ملک بھر میں ابہام کی فضا طاری رہتی ہے۔
بعض اوقات ملک کے بعض حصوں میں رمضان المبارک کا آغاز اکثریتی پاکستانی مسلمانوں سے ایک دن پہلے ہی کر دیا جاتا ہے۔ یہی رویہ یومِ عید کے ساتھ بھی روا رکھا جاتا ہے۔ اِسی سے ہمارے قومی اتحاد اور یکجہتی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
۔
اِس کے برعکس عالمِ عرب میں دو ایک دن پہلے ہی عرب عوام کو رمضان المبارک کے آغاز، اختتام اور یومِ عید بارے مطلع کر دیا جاتا ہے ۔ یوں رمضان شریف اور عید کی روحانی مسرتیں دوبالا ہو جاتی ہیں ۔
مارچ 2023 کے رمضان المبارک کا مبارک و مسعود آغاز ہو چکا ہے۔ آج دوسرا روزہ ہے ، لیکن رمضان کا آغاز عجب افراتفری میں ہوا ہے۔ رات سوا دس بجے ( جب زیادہ تر لوگ سونے کی تیاریاں کر رہے تھے) رمضان کا چاند نظر آنے کا اعلان کیا گیا۔
شومئی قسمت ہے کہ رمضان المبارک کے طلوع ہوتے ہی پاکستان بھر میں خونخوار مہنگائی مافیا بھی متحرک ہو جاتا ہے۔ پھلوں، شربتوں، کھجوروں اور دیگر بنیادی اشیائے خورو نوش کی قیمتیں آسمان تک پہنچا دی جاتی ہیں۔
ایک ماہ پہلے ہی پھلوں کا ذخیرہ بھی کر لیا جاتا ہے تاکہ رمضان میں روزہ داروں سے کئی گنا زیادہ دام وصول کر کے اپنی دنیا سنواری اور آخرت غارت کی جا سکے ۔میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ رواں مارچ کے پہلے تین ہفتوں کے دوران بازار سے کئی اہم پھل غائب کر دیے گئے ۔
ویسے تو ہماری ہر حکومت ،ہر رمضان شریف میں مہنگائی مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ موجودہ نگران اور مرکزی حکومت تو ویسے بھی ہر لحاظ سے کمزور ترین ہیں ؛ چنانچہ ان حکومتوں سے ملک بھر کے غریب اور متوسط طبقات بھلا یہ توقعات کیسے وابستہ کر سکتے ہیں کہ یہ حکمران رمضان میں مہنگائی مافیا کو نتھ اور نکیل ڈال سکیں گے؟چنانچہ امید یہی ہے کہ ملک بھر کے اکثریتی غریب عوام اِس رمضان شریف میں بھی مہنگائی مافیا کے سامنے روتے ہوئے یہ مبارک ایام بھی گزار دیں گے اور حکمران خونخوار مہنگائی مافیا کو کنٹرول کرنے کے کھوکھلے اعلانات کرتے رہیں گے ۔
عوام اب اِس ملک کے ہر قسم کے حکمرانوں سے اسقدر مایوس ہو چکے ہیں کہ اِن سے توقعات لگانا ہی چھوڑ دی گئی ہیں ۔ مہنگائی ، گرانی اور غربت و عسرت کا چڑھا دریا ہے کہ اپنی مرضی اور منشا سے جدھر چاہتا ہے، بے بس اور بے کس عوام کو اپنے ساتھ بہائے لے جارہا ہے ۔
سرکارکے متعلقہ محکموں نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ اِس رمضان شریف کے شروع ہوتے ہی ملک بھر میں مہنگائی42فیصد تک پہنچ چکی ہے ۔ یوں روزہ داروں کے لیے یہ مبارک و مسعود مہینہ بھی قیامتیں لے کر طلوع ہوا ہے ۔ کمر توڑ مہنگائی کی یہ قیامتیں ہر روز اس لیے طلوع ہو رہی ہیں کہ ہمارے حکمران عوام کے مسائل و مصائب سے قطعی لاتعلق ہو چکے ہیں ۔
اِن صوبائی اور مرکزی حکمرانوں کے اپنے اللے تللے بدستور جاری ہیں۔ ان میں کوئی فرق نہیں آیا ہے ۔ ریلیف نہیں ہے تو بس عوام کے لیے نہیں ہے۔
خزانہ خالی ہے تو عوام کو دکھانے کے لیے۔ اِس رمضان المبارک کے محترم و مکرم ایام میں جن دیگر مسلمان ممالک کے حکمرانوں نے اپنے عوام کو ریلیف دینا تھی ، رمضان شریف کے طلوع ہونے سے پہلے ہی اس ریلیف کا اعلان کر چکے ہیں ۔ مثلا: یہ کالم لکھتے ہوئے عالمِ عرب کے معروف انگریزی اخبار خلیج ٹائمز کی ایک خوش کن خبر نظر نواز ہوئی ۔
خبر میں بتایا گیا ہے کہ رمضان شریف کے شروع ہونے سے 15دن قبل ہی دبئی ، ابو ظہبی اور سعودی عرب کے بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹوروں کی 10ہزار آئٹمز پر زبردست رعائتیں دے دی گئی ہیں۔ فوڈ آئٹمز پر75فیصد رعائت اور نان فوڈ آئٹمز پر 60فیصد رعائت ۔
جب کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں کی عوام کش پالیسیوں کے کارن 2023 کے اِس رمضان شریف کے شروع ہوتے ہی ملک بھر میں آٹا بھی غائب ہے ۔
اگرچہ اِس دوران وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، نے 53ارب روپے کے رمضان پیکیج کا اعلان بھی کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ رمضان شریف میں غریب ترین افراد کو(25رمضان المبارک تک) مفت آٹا دیا جائیگا۔حقیقت مگر یہ ہے کہ آٹا غریبوں کے لیے بازار سے غائب ہے۔
رمضان المبارک شروع ہونے سے چند دن قبل پنجاب میں مفت آٹا تقسیم کرنے کا آغاز تو کر دیا گیا مگر اِس مستحسن عمل کے نتائج کیا نکلے ہیں؟ ہلاکت خیز!روزنامہ ایکسپریس نے بھی یہ افسوسناک خبر شائع کی ہے کہ پنجاب کے کئی شہروں میں مفت آٹا حاصل کرنے کی کوشش میں 2افراد موت کا نوالہ بن گئے۔
کئی غریب خواتین لوگوں کے منہ زور ہجوم میں بیہوش ہو گئیں ، لوگ مفت آٹا والے ٹرکوں پر ٹوٹ پڑے اور یہاں تک کہ کئی شہروں میں آٹے کے سیکڑوں تھیلے لوٹ لیے گئے ۔
اور یوں سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا مفت آٹے کے لیے جان اور آن کی قربانی بھی دینا پڑے گی؟ جس ملک کے ایک صوبے میں سیلاب زدگان کے لیے آنے والے ٹنوں کی مقدارمیں امدادی چاول بھی مستحقین میں تقسیم کرنے کی بجائے بازار میں فروخت کر دیے جائیں۔
اس ملک میں رمضان شریف میں غریب ترین افراد کو مہینہ بھر مفت آٹا کون تقسیم کرنے دے گا؟مہنگائی مافیا کے ہشت پا خونخوار پنجوں نے ہر قسم کے لالچی حکمرانوں کو اپنی گرفت میں لے کر بے بس کررکھا ہے ۔
ہمارے یہ حکمران طبقات اور ہر سطح کے بیورو کریٹ عوامی دکھوں سے کس قدر لا تعلق اور اپنے مفادات کے کس قدر لوبھی اور لالچی ہیں کہ اِس رمضان شریف کے آغاز سے قبل ایک اردو معاصر نے ایک نہائت دل شکن خبر شائع کی ۔
خبر میں تفصیل سے بتایا گیا کہ مارچ 2023کا رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لیے خیبر پختونخوا کی روئتِ ہلال کمیٹی نے 200افراد کے لیے پر تعیش کھانے کا آرڈر جاری کیا تھا۔ مذکورہ پر تعیش کھانے میں دم پخت ، بیف والے نارنجی چاول، مکس سبزی، چکن تکہ بوٹی، نان، سیخ کباب ، رشیئن سلاد، تازہ سلاد، حلوہ، منرل واٹر اور کولڈ ڈرنکس شامل تھے۔
اِس پر لاکھوں روپے کا بِل ادا کیا جانا تھا۔ اور جب سوشل میڈیا پر اِس پر تعیش کھانے کا آرڈر دینے والوں پر لعنت ملامت کی بوچھاڑ کی گئی تو مبینہ طور پر آرڈر کینسل کر دیا گیا اور مذکورہ صوبے کے متعلقہ وزیر نے اِس بارے انکوائری کا حکم بھی جاری کر دیا۔ امید مگر یہی ہے کہ دیگر انکوائریوں کی طرح یہ انکوائری بھی سرد خانے کی نذر کر دی جائے گی۔
حیرانی کی بات ہے کہ اِس پریشان کن خبر بارے ابھی تک روئتِ ہلال کمیٹی کے چیئرمین،مولانا عبدالخبیر آزاد، کی جانب سے کوئی ایسا بیان سامنے نہیں آ سکا ہے جس میں ایسی تعیشات کی مذمت کی جاتی۔
یہ کھابے کھانے کی اس وقت تیاریاں کی جارہی تھیں جب مسلح افواج کی 23مارچ2023 کی سالانہ پریڈ بھی محدود پیمانے پر اس لیے کی گئی ہے کہ قومی خزانے میں الو بول رہے ہیں اور آئی ایم ایف نے ہمارا اور ہمارے ملک کا ٹیٹوا دبا رکھا ہے ۔