ذوالفقار علی بھٹو ایٹمی ٹیکنالوجی کے بانی کی حیثیت سے ہمیشہ تاریخ کے سینے میں یاد رکھے جائیں گے-جب ہندوستان نے پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تو قوم پرست بھٹو نے مصمم ارادہ کرلیا کہ وہ پاکستان کو ہر صورت ایک ایٹمی قوت بنائیں گے- بھٹو نے اپنی آخری تصنیف” اگر مجھے قتل کیا گیا ” میں تحریر کیا” میں پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے ساتھ اکتوبر 1958 سے جولائی 1977 تک عملی طور پر وابستہ رہا ہوں- یہ زمانہ 19 برسوں پر محیط ہے – یہ اہم قومی منصوبہ جو بطور وزیر خارجہ اور انرجی کمیشن کے حوالے سے میرے ساتھ براہ راست تعلق رکھتا رہا ہے – جب میں نے پاکستان کے انرجی کمیشن کا چارج سنبھالا تو اس کی حیثیت ایک دفتر اور بورڈ سے زیادہ نہ تھی- اپنے پورے اخلاص مستحکم اور آہنی عزم کے ساتھ میں نے اپنی پوری طاقت اور صلاحیت اس پر صرف کر دی تاکہ میرا ملک نیوکلیئر توانائی کا ملک بن سکے- میں نے سینکڑوں نوجوانوں کو نیوکلیئر سائنس میں تربیت حاصل کرنے کے لئے یورپ اور شمالی امریکہ بھیجا-اسلام آباد کے جنگلوں میں ایٹمی ریسرچ سینٹر کی بنیاد رکھی- میں نے ڈاکٹر قدیر خان کو آمادہ کیا کہ وہ پاکستان واپس آ جائیں اور اور ایٹمی صلاحیت کے لئے کام کریں ان کو آزادی اور خودمختاری دی تاکہ اہم ترین قومی منصوبہ سرخ فیتے کا شکار نہ ہو” -1976 میں بھٹو نے امریکہ کے سیکرٹری خارجہ ہنری کسنجر کو لاہور میں استقبالیہ دیا اس موقع پر راقم بھی موجود تھا- ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے استقبالیہ خطاب میں کہا یہ لاہور ہے پاکستان کا دل ہے – یہاں پاکستان اپنے آپ کو ری پراسس کرتا ہے- ہنری کسنجر نے کہا کہ کچھ چیزوں کو ری پراسس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ کے لیے بہتر ہے کہ انہیں ہاتھ نہ لگایا جائے- کسنجر نے بھٹو سے کہا کہ امریکہ میں اگر ڈیموکریٹ حکومت میں آگئے تو وہ تمھیں عبرت کی مثال بنا دیں گے- ذوالفقار علی بھٹو نے اس کھلی دھمکی کے باوجود ایٹمی ری پروسیسنگ پروگرام کو جاری رکھا- انہوں نے ایک موقع پر یہ بھی اعلان کیا کہ اگر ہندوستان نے ایٹم بم بنایا تو ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے – ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو اندرونی طور پر مستحکم بنانے کے لئے 1973 کا متفقہ آئین منظور کرایا- بیرونی جارحیت سے تحفظ فراہم کرنے کے لئے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کی-امریکہ پاکستان پر نیوکلیئر پروگرام کے سلسلے میں مسلسل دباؤ ڈالتا رہا- مختلف نوعیت کی پابندیاں بھی عائد کی گئیں اور فرانس کے ساتھ پاکستان کے ایٹمی ری پراسسنگ پلانٹ کا معاہدہ بھی منسوخ کروا دیا-امریکی دباؤ کے باوجود پاکستان کا ایٹمی پروگرام جاری رہا- غلام اسحاق خان اور جنرل ضیاء الحق پر بھی سخت دباؤ ڈالا گیا مگر انہوں نے دباؤ میں آنے سے انکار کر دیا- جب روس نے نے افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کیں تو امریکہ نے روس کو افغانستان میں شکست دینے کے لیے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں اپنی آنکھیں بند کر لیں کیونکہ روس کو افغانستان سے نکالنا امریکہ کے قومی مفادات کے لیے ضروری تھا- افغان جنگ کے دوران پاکستان نے ایٹمی صلاحیت مکمل کر لی- امریکہ نے پاکستان کی وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو سے کہا کہ وہ ایٹمی پروگرام کو رول بیک کر دیں مگر بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے باپ کی طرح دباؤ میں آنے سے انکار کر دیا اور ایٹمی پروگرام کو جاری رکھا-11 مئی 1998 کو بھارت نے تین ایٹمی دھماکے کیے جن کے بعد پاکستان نے بھی 28 مئی 1998 کو جوابی ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا-
