اگست 2019 سے 5 اگست 2023 تک۔

اگست 2019 سے 5 اگست 2023 تک۔5
از قلم محمد فاروق رحمانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستان کی انتہاپسند ہندو جماعت، جو نسل پرستی میں نازی جماعت سے مماثلت رکھتی ہے، ابتدا سے ہی ریاست جموں وکشمیر کی اٹانومی کے خلاف تھی۔ اس لئے اس نے 1950 سے اس کے خلاف مہم چلائی۔ اس کا خیال تھا کہ کشمیر کو ہندوستان میں ضم کیا جائے اور اس کے بعد اس کا مسلم اکثریتی کردار ختم کرنے کی طرف توجہ مبذول کی جائے۔ کیونکہ جن سنگھ، راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ اور موجودہ بی جے پی کشمیر کو ایک ہندو ریاست سمجھتے ہیں۔ اس لئے اس جماعت نے آغاز میں 370 اور 35اے کی سنگین مخالفت کی اور جموں میں 1952اور 1953 میں پر تشدد تحریک چلائی، جبکہ شیخ عبداللہ ریاست کے وزیر اعظم تھے۔ جموں میں اس وقت پرجا پریشد اس کا نام تھا اور اس ایجی ٹیشن کو ہندوستان غیر شکل دینے کے لئے جن سنگھ کے سربراہ ریاستی قوانین پرمٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جموں آئے۔ پرمٹ رولز کی خلاف ورزی کے جرم میں ان کو وزیر اعظم شیخ عبداللہ کے احکامات کے تحت جموں کی سرحد پر گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ انہوں نے جیل میں بھوک ہڑتال کی اور وہ نظربند ی میں ہی وفات پاگئے۔ ان کی موت کے خلاف جن سنگھ موجودہ بی جے پی نے شیخ عبداللہ کے خلاف ہندوستان اور جموں میں تشدد آمیز فرقہ وارانہ ہنگامے کیے۔
بہرحال 1953 سے لے کر 2019 تک 370 دفعہ کی اصلی شکل مختلف صدارتی ترمیموں کے ذریعے سے بگاڑ دی گئی تھی اور یہ صرف ایک کھوکھلا اور مرجھائے ہوا درخت رہ گیا تھا۔ 1975 میں جب شیخ عبداللہ دوبارہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھ گیے، اس وقت بھی وہ اندرا گاندھی سے کھوئی ہوئی اندرونی خودمختاری کی مکمل شق واپس حاصل نہیں کرسکے۔ اور وہ وزیراعظم کا نام بھی حاصل نہیں کرسکے۔ تاہم یہ ایک علامت تھی اور 35 اے کے تحت کسی بھی غیر ریاستی باشندے کو اندرون ریاست اختیارات ، رعایات اور فوائد نہیں دیے جاسکتے تھے۔ لیکن بی جے پی اور اس کا کٹر ہندو قوم پرست مطمئن نہیں تھا۔اب اس جماعت پر آ ایس ایس کا مکمل غلبہ ہوچکی تھا۔ اور جب نریندرا مودی ہندوستان کے وزیر اعظم بننے گیے تو یہ معاملہ اور بھی خطرناک بن گیا۔ پھر بھی اسے سادہ اکثریت کی وجہ سے کئی سال اور انتظار کرنا پڑا۔ اس دوران حکمران ہندو جماعت نے ملک گیر ہندو قوم پرستی کی لہر چلائی۔ جس کے نتیجے میں اسے 2018 کو 2 تہائی اکثریت حاصل ہوئی اور اسنے کشمیریوں اور ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف ہمہ گیر جنگوں شروع کردی۔ کشمیر کے بارے میں اس کا یہی خیال تھا کہ 370 اور 35اے علیحدگی پسند گروپوں کے لئے زمین ہموار کر تے ہیں۔ حا لانکہ کشمیریوں کی توجہ ہمیشہ حق خودارادیت پر رہی۔ 370 اور 35 اے ایسی دفعات تھیں جو ہندوستان کا آئین بنانے والوں نے اپنی خوشی سے دستور کا حصہ بنا ئی تھیں۔ 2019 میں کئی عالمی اور علاقائی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ ہندوستان نے 370 ختم کرنے سے پہلے اپنے فیصلے کے حق میں ایک گہری سفارتی مہم چلائی تھی اور پاکستان اس سے باخبر تھا اور بیشتر عالمی برادری کو وہ مطمئن کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ چنانچہ جب 370 اور 35 اے کی تنسیخ عمل میں آئی، اس پر سلامتی کونسل نے بھی کوئی سخت ردعمل نہیں دکھایا اور پاکستان کی آواز بھی نحیف دکھائی دی۔ جہاں تک کشمیریوں کا تعلق ہے انہوں نے مختلف علاقوں میں جان ہتھیلی پر رکھ کر مزاحمت کی لیکن لوکل پریس کا پہلے ہی گلا گھونٹا گیا تھا اور بیرونی دنیا ہندوستان کی سفارتی مہم عروج پر تھی۔ اس لئے کشمیریوں کی آواز صدا بحران ثابت ہوگئی اور ہندوستان سرعت کے ساتھ کشمیر میں پرانے قوانین کی جگہ نئے قوانین کو نافذ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ ری آرگنائزیشن ایکٹ کو بھارت نے جس طرح سامنے لایا اور ریاست کو دو حصوں میں یو ٹی بنادیا، کہنے والوں کا کہنا تھا کہ یہ اعتماد، ارادے منصوبہ بندی اور عالمی اور علاقائی سطح پر حاصل کردہ اطمینان اور یقین دہانی کے بغیر ناممکن تھا۔
یہ صورت حال اب 4سال کی ہوگئی ہے لیکن کشمیریوں کی حالت زار کے مقابلے میں ہندوستان کی ظالمانہ چھلانگ کو دنیا نے ماں لیا ہے۔ کشمیر میں اس وقت بھی سخت گیر قوانین کے تحت ہزاروں نوجوان دور و دراز ریاستوں میں ماں باپ یا بیویوں سے جدا پڑے ہویے ہیں۔ ہر ایک کو جھوٹے مقدمات
مقدمات کا سامنا ہے۔ یہ اپنے ڈیفنس سے محروم ہیں۔ سیاڑھی نظام وسیع ہے جس میں گاؤں اور شہر جکڑے ہوئے ہیں۔ اخبارات صرف سرکاری اشتہارات اور ہینڈ آوٹ چھاپتے ہیں۔ سرویلنس مکمل ہے۔ لوگ سہمے ہوئے ہیں۔ لوگوں کے موبائلز، ٹیلیفون اور انٹرنیٹ پر ایجنسیوں کا کنٹرول ہے۔ پاکستان میں جن لوگوں کے عزیز اور دوست ہیں ان سب کے موبائلوں کی نگرانی کی جارہی ہے۔ اور ایسے تمام گھروں اور بیرونی رشتہ داروں کے کوائف کی تفصیلات اداروں نے محفوظ کیے ہوئے ہیں۔ مساجد اور وقف بورڈ وں کا نظام یو۔ ٹی نے اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ امام مسجد صرف نماز پڑھا سکتا ہے۔اور جمعے کو مسنون عربی خطبہ۔ کشمیری یا اردو میں کوئی خطاب کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اب امام اور خطیب اس پر عمل پیرا ہی ۔ 32 سالوں کے بعد ایک فول پروف نظام اور شرائط کے عاشور کے ماتمی جلوس ضرور نکلے، لیکن اسی طرح جس طرح یک جماعتی آمریتوں میں کبھی کبھار لوگوں کو اجازت دی جاتی ہے۔ لیکن ہندوستان کے کشمیر پر موقف پر اعتراض کرنے والوں یا حریت پسند وں کے لئے زمین تنگ ہے۔ جامع مسجد سرینگر اور اس کے میرواعظ عمر فاروق صاحب پر جمعے کی پابندیاں سالہا سال سے ہیں۔ وہ خود بھی اپنے ذاتی گھر میں محصور ہیں۔ منی لانڈرنگ وغیرہ کے غیر ثابت شدہ الزامات میں درجنوں رہنما قید حیات کاٹ رہے ہیں۔ یاسین ملک صاحب جن کے ساتھ سابق مرکزی حکومتوں نے مذاکرات کا سلسلہ قائم کیا تھا، جن کو عمر قید دی گئی ہے، اب سزائے موت دلوانے کے لئے مرکزی سرکار پر تول رہی ہے۔ جو لوگ انسانی بنیادوں پر صرف انسانی حقوق کے
طلبگار تھے، مثال کے طور خرم پرویز صاحب ، جو ہمیشہ تشدد کے خلاف رہے ہیں اور جن کی ایک ٹانگ بھی تشدد کی شکار ہو گئی تھی، ان کو کس مدرسین کی حالت میں ہندوستان کی ایک دور دراز ریاست میں بنیادی آئینی حقوق کی بات تحریر کرنے کی سزا دی جارہی ہے۔ ان کشمیریوں کو سزائیں دے کر ان کے والدین، اور بیوی بچے جرم بے گناہی کی سزا بھگت رہے ہیں۔
ریاست کا سو برس پرانا سرکاری اور قومی زبان اور تعلیم و تدریس کا سیکولر نظام، مذہبی آزادی کا نظام اور کشمیری تہذیب و ثقافت کا طرز بدلایا جاچکی ہے۔ ڈومیسائل کو کشمیریوں کے حقوق سے نکال کر غیر کشمیری بنادیا گیا۔ بنیادی مقصد یہ ہے کہ کشمیری مسلمان اقلیت میں آجائیں اور یو این قراردادوں کا حوالہ بے وقت کی راگنی قرار دیا جائے۔ یہ کچھ مشتے نمونہ از خروارے ہے۔
وقت تیزی کے ساتھ نکل رہا ہے۔ جو حالات کو بدلنے کے لئے وقت پر فیصلے کرتا ہے اور مظلوم کے حق میں راست اقدام کرتا ہے، وہی کا میاب رہتا ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ آج مسئلہ کشمیر ایک ایسے موڑ پر ہے ، جب اس کو دو فریقی اور سہ فریقی صورتوں سے نکال کر یک فریقی بنادیا گیا ہے۔ اور ہندوستان نے تمام اقدامات یونیلیٹرل unilateral بنادیے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے دوطرفہ معاہدے کہاں گیے اور کشمیری تو پہلے ہی کسی قطار میں نہیں تھے۔ جواب دو اب کیا سوچتے ہو۔ حکومت پاکستان اور مذہبی و سیاسی جماعتیں سب جواب دہ ہیں۔ مذہبی جماعتیں اس لئے کہ ان کا یہ مذہبی نعرہ تھا۔ اب بھی وقت ہے کہ کشمیریوں کو موجودہ عذاب سے نکالنے اور باعزت زندگی کا حق دینے کے لیے بڑے قومی اور بین الاقوامی اور سفارت اقدامات کیے جائیں اور مسئلہ کشمیر کو حل کردیاجایے۔
و ما علینا الاالبلاغ۔
نوٹ ۔محمد فاروق رحمانی جموں وکشمیر پیپلز فریڈم لیگ کے چئیرمین اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے سابق کنوینر ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں