ایسے وقت میں جب پاکستان معاشی ابتری سمیت کئی مشکلات کا شکار ہے۔بھارت کی آبی جارحیت نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ ویسے تو موسلا دھار بارشوں سے پورے ملک میں نقصانات ہوئے ہیں لیکن دریائے ستلج میں اونچے درجے کا سیلاب ہے اور بھارت نے اپنے آبی ذخائر کے منہ بھی بلا اطلاع کھول دئیے ہیں۔ اس سے ستلج کے اردگرد واقع پنجاب کے سات اضلاع کے سیکڑوں دیہات پانی میں ڈوب گئے ہیں۔ اور ہر طرف تباہی مچ گئی ہے۔ سیلاب سے بری طرح متاثر ہونے والے اضلاع اور ملحقہ علاقوں میں بہاولپور، بہاولنگر، پاکپتن، قصور، وہاڑی، ملتان، ساہیوال، راجن پور، خانیوال، لیہ ، لودھراں ، اوکاڑہ وغیرہ شامل ہیں جہاں زندگی کے معمولات درہم برہم ہو کر رہ گئے ہیں۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے مزید بارشوں کی پیشنگوئی کی ہے جس سے حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔اب تک صرف بہاولپور میں سیلاب سے متاثر ہونے والے ایک لاکھ 28 ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔ مال مویشی اس کے علاوہ ہیں۔ کئی دیہات مکمل طورپر پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ کئی حفاظتی بند ٹوٹ گئے ہیں۔ لاکھوں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں زیر آب ہیں۔ کپاس، گندم اور چارے کی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ قصور کے قریب گنڈا سنگھ والا، ہیڈ سلیمانکی ، ہیڈ اسلام وہاڑی اور دوسرے مقامات پر پانی کا بہائو وقت گزرنے کے ساتھ تیز ہونے کی اطلاعات ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق بارشوں کا سلسلہ اگلے ماہ بھی جاری رہے گا جس سے تمام دریائوں میں پانی آئے گا اس سے انسانی آبادیوں اور فصلوں کیلئے مسائل پیدا ہوں گے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے اب تک دس لاکھ کے قریب لوگوں کو نکال کر محفوظ مقامات پر پہنچایا جا چکا ہے۔ انہیںخوراک اور رہائش کی سہولتیں بہم پہنچانے کیلئے ریلیف کیمپ قائم کر دئیے گئے ہیں۔ متاثرین کی منتقلی کیلئے کشتیاں چلائی جا رہی ہیں جن پر ایک ہزار امدادی کارکن تعینات ہیں۔ صحت کے مسائل سے نمٹنے کیلئے 95 میڈیکل کیمپ مختلف علاقوں میں قائم ہیں۔ متاثرین کی مدد کیلئے ایمبولینسیں بھی چلائی جا رہی ہیں اور ریسکیو 1122کو متحرک کر دیا گیا ہے۔ سیلاب زدگان کیلئے امدادی کارروائیاں جاری ہیں جو ضرورت کے مقابلے میںکم ہیں اور متاثرین نے شکایت کی ہے کہ ناکافی امداد کے باعث وہ کئی طرح کی مشکلات کا شکار ہیں۔ وہ اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں مگر بجلی کے بل اب بھی انہیں بھیجے جا رہے ہیں۔ کئی لوگوں نے حکومتی سطح سے ناکافی امداد اور توجہ کی شکایت بھی کی ہے۔ کسانوں نے اپنی فصلوں، گھروں اور مال مویشیوں کو سیلاب سے بچانے کیلئے اپنی مدد آپ کے تحت جو بند بنائے تھے وہ پانی کے ریلے کا مقابلہ نہیں کر سکے اور ٹوٹ گئے جس سے بڑی تباہی مچی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مقامی انتظامیہ متاثرین کی مدد کیلئے سرگرم ہے لیکن ان کی مشکلات کم کرنے کیلئے مزید بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ضرورت امر کی ہے کہ متاثرین کے نقصانات کے ازالے کیلئے باقاعدہ فنڈ قائم کیا جائے۔ انہیں رہائش اور خوراک فراہم کرنے پرزیادہ توجہ دی جائے اور مال مویشیوں کیلئے چارے کا بندوبست کیا جائے۔ بارشوں کی وجہ سے سیلاب تو ہر سال آتے ہیں مگر اس مرتبہ معمول سے کچھ زیادہ پانی آیا ہے۔ اوپر سے بھارت نے بدنیتی سے کام لے کر سندھ طاس معاہدے کی پاسداری نہیں کی اور آبی ذخائر سے پانی چھوڑتا رہا جس سے انسانوں، مال مویشیوں اور فصلوں کو زیادہ نقصان پہنچا ۔ حکومت کو اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے امدادی سرگرمیاں تیز کرنی چاہئیں تاکہ معیشت زدہ لوگوں کی پریشانیاں کم ہو سکیں۔ مخیر حضرات کو بھی امدادی کیمپوں کیلئے فراخ دلانہ عطیات دینے چاہئیں۔
