قائد جیل میں ہے، کارکنوں کا خیال رکھیں — یہ آپ کی ذمہ داری ہے

قائد جیل میں ہے، کارکنوں کا خیال رکھیں — یہ آپ کی ذمہ داری ہے
باعث افتخار انجنیئر افتخار چودھری
شہر یار ریاض کا میسیج تھا اور نوید نے ناشتے کی ٹیبل پر بتایا
آج پاکستان تحریک انصاف کے 120 سے زائد بے گناہ کارکن راولپنڈی کی جیلوں میں قید ہیں، جنہیں دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ان کارکنوں کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ اپنے قائد کی رہائی کے لئے پُرامن احتجاج کرنے نکلے تھے، اور اپنے گھروں کو واپس جانے کے بجائے جیلوں میں ڈال دیے گئے۔ یہ وہ کارکن ہیں جنہوں نے 28 ستمبر کو خان کی رہائی کے لئے آواز بلند کی، پُرامن احتجاج کیا اور اپنی جماعت کی عزت بچائی۔ لیکن آج ان کی آواز نہ قومی میڈیا پر اٹھائی جا رہی ہے، اور نہ ہی کوئی قائد ان کا ساتھ دے رہا ہے۔

یہی کارکن ہیں جو کسی بھی تحریک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ کس طرح 1980 کی دہائی میں پیپلز پارٹی کے جہانگیر بدر نے اپنے کارکنوں کے لئے جدو جہد کی؟ ایک دن میں اپنے والد کی مرسیڈیز لے کر اپنے کزن کے ساتھ جہانگیر بدر کے پاس پہنچا، جو گوجرانوالہ میں کارکنوں کی حالت پوچھ رہے تھے۔ ان کے دل میں کارکنوں کا درد تھا، اور انہوں نے مرزا امین بیگ کو پیسے دیے کہ جاؤ اور جا کر کارکنوں کو دے آؤ تاکہ وہ مشکلات کا سامنا نہ کریں۔ یہ مثال ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ایک حقیقی قائد کبھی اپنے کارکنوں کو تنہا نہیں چھوڑتا۔

آج ہمیں بھی اپنے کارکنوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ ان میں سے کئی کارکن اپنے بچوں کے لئے کپڑے خریدنے کے قابل نہیں ہیں، کئی ایسے ہیں جو اپنے گھر کے برتن بیچ رہے ہیں تاکہ اپنے خاندان کو کھانا دے سکیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے عمران خان کے ویژن کے لئے اپنی جان اور مال قربان کیا، لیکن آج وہ جیلوں میں بند ہیں، یا زندگی کے مشکل ترین دن گزار رہے ہیں۔ کیا یہ ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ہم ان کا خیال رکھیں؟

قیصر عباس شاہ کی مثال ہمارے سامنے ہے، جس نے جیل میں بند کارکنوں کی رہائی کے لئے اپنی زندگی داؤ پر لگا دی، عمران عباسی اور فیصل ملک کے علاوہ بے شمار لوگوں کو رہائی دلائی حسینہ لشکر کا یہ جوان ہاتھ میں علی کی ذولفقار لئے عمران خان کے لیے لڑ رہا ہے ،،فتنی،، اس کے بھی خلاف ہے دوسروں کے بھی شاید یہ طاہر القادری کی جماعت سے ڈرامے سیکھ کر لوگوں کے سامنے ایکٹنگ کرنے آئی ہے این اے 57 عمران خان کا ہے اور انجنیئر افتخار چودھری کا ہے
ہمارے وکلاء دن رات عدالتوں میں کیس لڑےرہے ہیں نعیم پنجوتھ اور انتظار پنجوتھ بھائیوں کی جوڑی نے تاریخ میں نام بنا لیا ہے اور دلیری سے ان کارکنوں کا دفاع کیا۔ ایسی قربانیاں تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔ اسی طرح، شہریار ریاض، جس نے شیخ رشید کو شکست دے کر قومی اسمبلی کی نشست حاصل کی، آج بھی اپنے قائد کے ویژن کے ساتھ کھڑا ہے، اور کارکنوں کے لئے آواز بلند کر رہا ہے۔

شیخ رشید اور حنیف عباسی جیسے لوگ آج اقتدار کی سیاست میں ہیں، لیکن ان کا کوئی کارکنوں کا حال پوچھنے والا نہیں۔ ایک وقت تھا جب میں خود جیل میں تھا میں بعد میں سعودی عرب رہا سات ماہ گزارے
اور اس دوران بھی کارکنوں کی حوصلہ افزائی کرتا رہا۔ یہ ایک قائد کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کے ساتھ کھڑا ہو، چاہے حالات کتنے بھی مشکل ہوں۔

یاد رکھیں، آج ہم حالتِ جنگ میں ہیں۔ ہمارا لیڈر قید میں ہے، اور وہ جو اس کی رہائی کے لئے لڑ رہے ہیں، وہ بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ ہمیں ان کارکنوں کا ساتھ دینا ہوگا، جو اپنی جان پر کھیل کر اس تحریک کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ آج جو کارکن جیلوں میں ہیں، ان کا نام تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا، لیکن اس وقت ان کی ضرورت روٹی اور مدد ہے، جو ہمیں فراہم کرنی ہوگی۔

ہم نے کرونا کے دوران جس طرح پورے ملک میں لوگوں کی مدد کی، آج ہمیں ایک اور ایمرجنسی کا سامنا ہے۔ ہمیں ان کارکنوں کی لسٹیں بنانی ہوں گی، جو جیلوں میں ہیں، جو بے روزگار ہیں، جن کے حالات انتہائی خراب ہو چکے ہیں۔ ہمیں ان کا خیال رکھنا ہوگا، کیونکہ اگر ہم نے ان کا ساتھ نہیں دیا، تو کل کوئی بھی ہماری تحریک کا نام لینے والا نہیں ہوگا۔

یہ وقت باتیں بنانے کا نہیں، بلکہ عمل کرنے کا ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ تحریک کے کارکن ہی اس تحریک کی اصل روح ہوتے ہیں، اور ان کے بغیر کوئی بھی لیڈر یا جماعت زندہ نہیں رہ سکتی۔ آج ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، جیسے قیصر بشاہ نے عدالتوں میں کارکنوں کی لڑائی لڑی، جیسے جہانگیر بدر نے اپنے کارکنوں کی مدد کی، اور جیسے شہریار ریاض سردار ناصر چوہدری نذیر ،میر افضل ،زیاد کیانی راجہ بشارت اور بڑے لوگ آج بھی اپنے کارکنوں کے لئے کھڑے ہیں
پنڈی کے کارکن مثالی ہیں راجہ عثمان ٹائیگر کمال۔خان اور راجہ طاہر کی مثال آپ کے سامنے ہیں
آئیں، ان کارکنوں کا ساتھ دیں، کیونکہ ان کی قربانیاں ہماری تحریک کی بقا کے لئے ضروری ہیں۔ اللہ ہمیں اپنے ان بہادر سپاہیوں کا خیال رکھنے کی توفیق دے
ہر شخص کو اپنا اپنا کام کرنا ہوگا:
جنگ کا میدان صرف تلواروں اور ہتھیاروں تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ آج کے دور میں قلم، زبان اور عمل بھی ہتھیار ہیں۔ ہر وہ شخص جو سڑکوں پر آ کر نعرے نہیں لگا سکتا، جس کی صحت خراب ہے یا جس کا دل کا آپریشن ہو چکا ہے، وہ بھی اپنی قوت کو استعمال کر سکتا ہے۔ ان کے پاس قلم ہے، سوچ ہے، الفاظ ہیں، اور یہ بہت بڑا ہتھیار ہے۔ جس کے پاس ٹی وی پر بیٹھ کر بات کرنے کا ہنر ہے، وہ بھی اپنی آواز کو اس تحریک کے حق میں بلند کر سکتا ہے۔یہ وقت اس بات کا نہیں ہے کہ فلاں لیڈر ٹھیک ہے فلاں نہیں میں کئی دنوں سے دیکھ رہا ہوں کہ لوگ اہستہ اہستہ ہماری پارٹی سے اچھی لیڈرشپ کو فارغ کرا رہے ہیں یہ ایک سازش ہے یاد رکھ لیں عمر ایوب جیسا ذہین و فتین شخص نے اج تک اس نوجوان کو اپنے سامنے دیکھا ہے پلٹے بڑے کوئی بندہ نہیں تھا اس کو بھی ہم نے ۔۔۔ کر کے پیچھے کر دیا علی امین گنڈا پور ایک ٹگڑاا ادمی تھا قبیلے والا ادمی تھا جس نے وزیرستان میں جب حالات بہت خراب تھے تو وہاں پورے پاکستان سے انے والے لوگوں کو سنبھالا دیا تھا اور جس نے مولانا فضل الرحمان کو شکست دی تھی اس کو بھی ۔۔۔ کر کے ایک سائیڈ پہ کر دیا یہ سازش ہوتی ہے ایسا ہی نہیں ہماری ایجنسیاں پوری دنیا میں کامیاب وہ گھر کے اندر لڑائی کرا دیتی ہیں یہ گھر میں جو لڑائی کرائی گئی ہے یہ بھی سازش ہے اب تیسرا نام ا رہا ہے جناب بیرسٹر گوہر کا اس کو بھی نام کر دو یہ بھی برا ہے یہ بھی برا ہے وہ بھی برا ہے لیڈر کہاں سے لاؤ گے لیڈرز صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں عمران خان جیسا بندہ بہت عرصہ لگتا ہے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

مت کرو اپنے پرانے لوگوں کا احترام کرو پارٹی میں ان کو رہنے دو اس پارٹی میں یہ کیا نوبت اگئی ہے یہ تو پرائیویٹ لوگوں کی کمپنی ہے جو گھر سے کام پہ اتا ہے اور واپس منہ لٹکائے گھر لوٹتا ہے کہ میری نوکری ختم ہو گئی مثال یوسف زئی کو میں نسیم سحر کا شعر مثال دیتا ہوں
نئے چراغ جلانا اگر ضروری ہے ب
جھے دیوں کا مگر احترام بھی کرنا
جب عمران خان اکیلے ہوا کرتا تھا جب یہ ٹانگیں کی سواری ہوا کرتی تھی اس سواری میں انجینئر افتخار چڑھا تھا
“فراز کہتے ہیں:
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

ہر فرد کو اپنے حصے کا کام ایمانداری اور فرض شناسی سے کرنا ہوگا۔ تنظیموں کے عہدے صرف نام و نمود کے لیے نہیں ہوتے، ان کا اصل مقصد جدوجہد اور خدمت ہے۔ اگر آپ کسی تنظیم کے صدر یا نائب صدر ہیں، تو آپ کا فرض ہے کہ کارکنوں کی مدد کریں، ان کے مسائل سنیں اور ان کا ساتھ دیں۔
جیسا کہ عباس تابش کہتے ہیں:

“منزلوں سے گریز پا ہو تم
راستوں پر اعتبار کرو!”

آپ کو جنگ احد کی مثال یاد ہوگی۔ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیراندازوں کو حکم دیا تھا کہ اس پہاڑی پر کھڑے رہو، لیکن انہوں نے مالِ غنیمت کی طرف دوڑ لگائی، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خالد بن ولید پیچھے سے حملہ آور ہو گئے، اور ہمیں بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جیسے بہادر اس جنگ میں شہید ہوئے۔ اس مثال سے ہمیں سیکھنا چاہیے کہ قائد کی بات کو ماننا اور اپنے مقام پر ثابت قدم رہنا ضروری ہے، ورنہ نتائج بھیانک ہو سکتے ہیں۔

تاریخ میں کردار بنتے اور مٹتے ہیں:

تاریخ میں حسین اور یزید دونوں کردار کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ آپ کو حسین بننا ہے، اور یزیدیت کا مقابلہ کرنا ہے۔ آج کے دور میں بھی ایسے کردار ہیں جو ظالم اور جابر ہیں، اور جو حق پرست ہیں۔ آپ کو ان ظالم قوتوں کے خلاف ڈٹ جانا ہے۔ جیسے پنجاب کی ایک خاتون وزیراعلیٰ، جو ظلم کر رہی ہے۔ لیکن ریحانہ ڈار جیسے لوگ، جو ان حالات میں بھی مقابلہ کر رہے ہیں، ہمیں سکھاتے ہیں کہ اگر دل میں ایمان ہو تو کوئی ظلم آپ کو جھکا نہیں سکتا۔

فراز کے الفاظ میں:

“جو سچ کی راہ پہ چلتے ہیں وہ جھکا نہیں کرتے،
یہی تو وہ ہیں جو تاریخ بدلتے ہیں!”

مریم نواز شریف کو بھی سوچنا چاہیے۔ انہیں اقتدار کے دنوں میں عوام کے دکھ اور درد کو یاد رکھنا ہوگا، کیونکہ انہوں نے خود بھی برے دن دیکھے ہیں۔ میں ان کے ان دنوں کا گواہ ہوں، جب وہ خود رو رو کر کہتے تھے کہ اگر ہمیں موقع ملا، تو ہم عوام کی خدمت کریں گے۔
جیسا کہ میاں محمد بخش نے کہا:

“پڑھو کلمہ، رکھو نیت نیک
کرو وہی جو رب کو ہے ٹھیک!”

آج کا وقت اسی نیت، اسی جذبے سے کام کرنے کا ہے۔ یہ جنگ ہے، یہ جہاد ہے، اور ہر شخص کو اپنی جگہ پر کھڑا رہ کر اپنا کام کرنا ہوگا۔ اپنے کارکنوں کا ساتھ دینا ہوگا، ان کے مسائل سننے ہوں گے، اور ان کے ساتھ کھڑے رہنا ہوگا۔ یہ قربانیوں کا وقت ہے، اور تاریخ ہمیشہ انہیں یاد رکھے گی جنہوں نے مشکل وقت میں اپنی ذمہ داری نبھائی

اپنا تبصرہ لکھیں