دھرنے کے بعد

کچہری
میاں منیر احمد

ایک دہائی کا عرصہ ہو نے جارہا ہے‘ اسلام آباد دھرنوں کے گرادب میں پھنسا ہوا ہے‘ ان دھرنوں کے پیچھے کون ہے اور مقاصد کیا ہیں؟ کوئی علم نہیں‘ اگر آنکھیں بند کرکے سوچا جائے تو دھرنوں کے پیچھے جو بھی ہے‘ وہ صاف نظر آتا ہے اور مقاصد بھی سمجھ میں آتے ہیں‘ لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا کہ اہل اسلام آباد پر کیا گرزتی ہے‘ اسلام آباد جو ملک کا دارلحکومت ہے‘ یہاں ہر رنگ نسل اور صوبے کے پاکستانی موجود ہیں‘ یہ سب پاکستانی ہیں‘ کسی پر علاقائی رنگ چڑھاہوا نہیں ہے‘ مگر یہ پہلی بار ہوا کہ دھرنے میں شامل لوگ‘ ہجوم‘کسی کے کہنے پر یا خود سے یہ نعرے لگاتے ہوئے بلیوایریا میں داخل ہوئے‘ کہ کہاں ہے پنجابی؟ نہیں چھوڑیں گے‘ ہمارا گمان یہی ہے کہ ان لوگوں کو کسی نے یہ نعرہ نہیں دیا ہوگا‘ تاہم پھر بھی یہ سوال موجود ہے کہ آخر یہ نعرہ کیوں لگایا گیا‘ تحریک انصاف سمیت ملک کی کی تمام قومی سیاسی جماعتوں کو ملک میں اپنے منشور اور پروگرام کے لیے عوام کی حمائت حاصل کرنے اور انہیں اپنے پروگرام کا ہامی بنانے کا حق ہے‘ یہ جمہوری حق انہیں آئین نے دے رکھا ہے‘ ہمارا آئین کسی ایک صوبے کے لیے نہیں ہے بلکہ پورے پاکستان کے لیے ہے‘ لہذا لسانی‘ علاقائی سوچ جہاں بھی پیدا ہورہی ہے اسے قومی سوچ میں تبدیل کرنا ہی ہم سب کی قومی ذمہ داری ہے‘ اور یہ بات چونکہ تحریک انصاف کے دھرنے میں سامنے آئی ہے لہذا تحریک انصاد کی قیادت اس بارے میں ضرور غور اور فکر کرے‘ ہر جگہ ایک ہی سوال پوچھا جارہا ہے کہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں کیا ہو؟ کیا ہوا؟ جس طرح کا جھوٹ پھیلایا جارہا ہے ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا؟ جو کچھ بھی ہوا وہ جی ٹین میں ہوا جناب! اس کا کہیں ذکر نہیں ہے‘ جس کا رد عمل ڈی چوک میں دکھایا گیا“ جی ٹین رہائشی سیکٹر ہے جو اسلام آباد کے ڈی چوک سے کم و بیش دس کلو میٹر دور ہے‘ وہاں ایک واقعہ ہوتا ہے کہ امن و امان کی ڈیوٹی پر تعینات تین اہل کار جان سے گئے‘ ایک تیز رفتار گاڑی آئی اور انہیں کچل کر چلی گئی‘ مگر یہ گاڑی جاتی کہاں؟ ملزم پکڑا جا چکا ہے‘ اب فیصلہ عدالت میں ہوگا‘ فیصلہ جو بھی ہو‘ جیسا بھی ہو ہمیں قبول ہے کہ عدالت فیصلہ شہادتوں اور گواہی کی بنیاد پر دے گی‘ لیکن جن لوگوں نے خود ہی فیصلہ لکھنا اور سنانا شروع کردیا تھا‘ ان کی ایسی چھترول ہوچکی ہے کہ اب وہ بھی عدالت کے فیصلے تک باالکل خاموش رہیں گے‘ ان کی صحافت میں جتنی بھی تڑ تھی وہ اب نکل چکی ہے‘………… صحافت‘ واقعی ایک ذمہ دارانہ کام ہے‘ لیکن کچھ عرصہ ہوا کہ جب بھی لفظ صحافت لکھا جاتا ہے تو ساتھ ہی یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ ذمہ دارانہ صحافت ہونی چاہیے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب صحافت واقعی ذمہ دارانہ صحافت نہیں رہی‘ اس لیے ہی اس کا ذکر جب بھی ہوگا تو لفظ ذمہ دار صحافت ضرور لکھا اور بولا جائے گا‘ اب سوال یہ ہے کہ کسی بھی اخبار میں کوئی بے بنیاد‘ غلط خبر چھپ جائے تو ذمہ دار کون ہوگا؟ کیا رپورٹر اس کا ذمہ دار ہوگا جس نے خبر فائل کی‘ نہیں‘ صرف رپورٹر نہیں بلکہ مدیر بھی برابر کا ذمہ دار کہلائے گا کہ جس نے اس خبر کو مستند مان کر ہی اخبار میں شائع کیا‘ کیونکہ مدیر ہی اصل مورچہ ہے جہاں ایک ایسا سپاہی بیٹھا کہ وہ چان پھٹک کا حتمی اختیار رکھتا ہے‘ چاہے تو خبر شائع ہونے دے چاہے تو نہیں ہونے دے‘ غلط خبر کی اشاعت پر جہاں رپورٹر سے باز پرس ہوگی وہیں مدیر بھی بری الزمہ نہیں ہوگا‘ تحریک انصاف نے شور مچا رکھا ہے کہ سینکڑوں کارکن مارے گئے‘ اب بیرسٹر گوہر کہہ رہے ہیں کہ ان کی اطلاع کے مطابق یہ تعداد 12 ہے‘ یہ بیرسٹر گوہر کی گواہی ہے‘ تعداد جتنی بھی ہو‘ کسی بھی انسانی جان کا یوں چلے جانا‘ اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے اور جس قدر بھی افسوس کیا جائے کم ہے‘ لیکن یہ کیسی صحافت ہے اور یہ کیسے یوٹیوبرز ہیں‘ جو صرف پیسہ کمانے کے لیے تعداد کے بارے میں اول فول بک رہے تھے‘ انہیں صرف یہ یقین تھا کہ جس قدر بھی وائرل ہوں گے اسی قدر پیسہ ملے گا‘ لعنت ہے ایسے پیسے پر جو جھوٹ پھیلاکر کمایا جائے‘ کیا یہ صحافت ہے؟ کیا یہی صحافت ملک کی یونیورسٹیز میں پڑھائی جاتی ہے؟ ہر گز ہر گز ایسا نہیں ہوتا‘ سورہ الحجرات میں دی گئی ہدایات بڑی واضح ہیں‘ اگر ہم سورہ الحجرات کی دی ہوئی گائیڈ لائن پر عمل کرلیں تو کبھی کسی کی خبر باؤنس نہ ہو‘ اور کسی رپورٹر اور مدیر کو شرمندہ نہ ہونا پڑے‘ ہمارے ایک بڑی مصیبت ہے‘ لوگ بھی جھوٹ ہی سننا پسند کرتے ہیں‘ اگر انہیں ہوا کے رخ کے برعکس بات بتائی اور سنائی جائے تو اسے تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے‘ ان میں وہ بھی شامل ہیں جن کا دعوی ہے ہمیشہ سچ ہی بولنا چاہیے وہ بھی سچ سننے کو تیار نہیں ہوتے‘ تحریک انصاف کم و بیش ایک دہائی سے سڑکوں پر احتجاجی سیاست ہی کرتی نظر آتی ہے، 2013ء کے انتخابات سے لے کر آج تک اِس کے کارکن چین سے نہیں بیٹھ سکے، احتجاجی سیاست تو اب قومی شعار بنتی نظر آتی ہے، تحریک انصاف کیا‘ دیگر جماعتیں بھی احتجاج کے لیے اسلام آباد کا رُخ کر لیتی ہیں اور اسلام آباد بند کرنے کی خواہش میں مبتلا رہتی ہے‘ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو یہ خیال اور اپنے دل میں احساس پیدا کرے کہ دھرنے کے دنوں میں اہل اسلام آباد پر کیا گزرتی ہے؟ تحریک انصاف ہو یا دوسری سیاسی جماعتیں سب اپنا جائزہ لیں‘ اور اہل اسلام آباد کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا کھیل بند کریں سیاسی جماعتوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ جب چار ماہ سے زائد کا دھرنا لا حاصل رہا، لانگ مارچ ناکام رہے، کسی جلسے یا جلوس سے کوئی مطلوبہ نتیجہ نہیں حاصل ہوئے تو اس کا مطلب ہے کہ احتجاجی سیاست کی گنجائش ذرا کم ہی ہے، جتھوں کے دباؤ پر حکومتیں ختم نہیں جا سکتیں۔کوئی بھی عمل، کوئی بھی ردعمل قانونی دائرے اور پارلیمانی حدود میں ہی کامیاب ہو سکتا ہے‘ ہمارے ہاں بنگلہ دیش ی مثال دی جاتی ہے‘ وہاں دیکھیں تو سہی اب کیا ہورہا ہے؟ احتجاج اور فساد کے بعد حکومت تو بدل گئی لیکن وہاں مسائل حل ہونے کی بجائے مزید گمبھیر ہو گئے ہیں عمران خان ملک کے وہ پہلے وزیراعظم تھے جنہیں باقاعدہ تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محروم کیا گیا۔اس کے بعد اْنہوں نے پارلیمان میں بیٹھنے کی بجائے مستعفی ہو کر سڑکوں کا رْخ کر لیا، دو صوبوں میں قائم اپنی حکومتوں کو خود ہی ختم کر دیا لیکن پھر بھی ناکام ہی رہے۔ کبھی سائفر لہرایا اب امریکہ سے سائفر کا انتظار ہے اب اُنہوں نے فائنل احتجاج کی کال دی تھی‘ اس سے کیا حاصل ہوا؟ اسے چاہیے کہ اپنی ضد ایک طرف رکھے‘ حکومت بھی بات چیت کا راستہ کھولے، تحریک انصاف بھی مزاکرات کی میز پر بیٹھے کہ معاملات بالآخر سڑکوں پر نہیں پارلیمان ہی میں حل ہوں گے۔

اپنا تبصرہ لکھیں