جمہوریت کی بالا دستی کے لیے باہر نکلنا ہوگا‘ آصف


مسلم لیگ مسلم لیگ (ن) کے رہنماء اور رکن قومی اسمبلی خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کی حمایت کی ہدایات لندن میٹنگ میں سات دسمبر کوقیادت کی طرف سے دی گئی تھیں لندن میٹنگ میں حلف لیا گیا تھا کہ اس میٹنگ کی تفصیلات یہاں سے باہر نہیں جائیں گی۔لندن میٹنگ میں کسی نے فیصلے سے اختلاف کیا یا اتفاق اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔ مستقبل کی سیاست بہتر ہوگی، جلدسلیکٹرزاور سلیکٹڈ ماضی کا حصہ بن جائیں گے۔ نواز شریف اسپتال میں تھے تو ایک دن بھی 100سے زائد افراد جمع نہیں ہوسکے۔لاہور سے مارچ گزرا تو ہمارے لوگ اس میں شریک نہیں ہوئے،سوشل میڈیا اور ووٹ دینے کی حق تک لوگ حمایت کرتے ہیں۔آرمی ایکٹ ترمیم کی حمایت کرنے سے ہمارے نظر یے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ انہوں نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کی حمایت پر پارٹی میں بھی مجھ پر تنقید ہوئی ہے۔جب میں نے بتا یا کہ آرمی ایکٹ کی ترمیم کی حمایت کا فیصلہ نوازشریف کی ہدایات کی روشنی میں کیا گیا ہے تو پارٹی میٹنگ میں مجھ پر تنقید کی گئی۔راناتنویر،خرم دستگیر،پرویزرشیداورایاز صادق نے اعتراف کیا کہ میں کچھ اپنے پاس سے نہیں کہہ رہا جو کچھ کہا وہ پارٹی قیادت کا حکم تھا۔آرمی ایکٹ پر جو فیصلہ میاں نوازشریف نے کیا اس پر عمل درآمد کیا گیا اگر وہ اس کے برعکس فیصلہ کرتے تو بھی فیصلے کی تعمیل کی جاتی۔گزشتہ تیس سالوں میں کبھی پارٹی کے فیصلوں کیخلاف کھل کر بات نہیں کی چاہے مجھے وہ فیصلے پسند ہوں یا نہ ہوں۔مسلم لیگ نون کے 84میں سے 73ارکان نے ووٹ کاسٹ کیا،چارارکان چھٹی پر تھے،سعدرفیق،شاہد خاقان،چوہدری عاصم اقبال نہیں آئے۔جماعت نے جو فیصلہ کیا درست تھا میں اس کی مکمل حمایت کرتا ہوں اگر میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کا مخالف ہوتا تو ووٹ نہیں ڈالتا۔شہبازشریف کوئی فیصلہ نواز شریف کی مرضی کے بغیر نہیں کرتے۔جو لوگ نظریے کی بات کرتے ہیں انہیں دیکھنا چاہئے کہ میاں نوازشریف نے کتنی قربانیاں دی ہیں۔دوبھتیجے قیدمیں ہیں،مریم نوازکو ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے،کاروبار تباہ ہوچکے ہیں،گھر تک داؤپر لگ چکے ہیں۔میاں نوازشریف اس سے زیادہ کیا کرسکتے ہیں۔جو لوگ آج ہماری جماعت اور نوازشریف پر تنقید کررہے ہیں وہ پاناما کے معاملے پر نوازشریف کیخلاف کھڑے تھے۔لوگ کیا سوچتے ہیں اس سے غافل ہوجائیں تو آپ کی سیاست ختم ہوجاتی ہے۔ مسلم لیگ نون سمجھتی ہے کہ انتخابات 2018 میں دھاندلی کی گئی ہے۔بل کی حمایت کرنے سے ہمارے نظر یے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ سیاستدانوں پر عوام تنقید کرتے ہیں۔احسن اقبال،شاہد خاقان،پرویز رشید اگر آرمی ایکٹ پر میڈیا سے گفتگو نہیں کررہے تو یہ سوال بھی انہی سے ہونا چاہئے۔ میں پارٹی کا موقف پیش کررہا ہوں۔ پارٹی فیصلوں سے اختلاف ضروررجسٹرکرانا چاہئے لیکن پارٹی کافیصلہ ہی آخری فیصلہ ہوتا ہے۔اگر کوئی اپنے نظریے کی ترویج کرنایاپارٹی کے فیصلے کی نفی کرنا چاہتاہے تو یہ اس کا اختیار ہے۔ہماری جماعت میں بل کی حمایت پر اختلاف بھی ہوا لیکن تقریباً پوری پارٹی نے ووٹ کاسٹ کیا۔مریم نوازسے آرمی ایکٹ کی حمایت پر مشورہ ہوا یا نہیں اس کا مجھے علم نہیں۔پارٹی کو کچھ نقصانات ایسے ہوتے ہیں جسے وہ سنبھال سکتی ہے لیکن کچھ نقصانات کاازالہ ممکن نہیں ہوپاتا۔ پارٹی کا ایک واٹس ایپ گروپ میں نے اپنی مرضی سے چھوڑا ہے۔شاہد خاقان عباسی نے مجھ پر تنقید کی یا نہیں۔اس پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔ساتھیوں کے ساتھ اچھا وقت گزرا ہے کسی چیز کو عوامی مسئلہ نہیں بناناچاہتا۔ کبھی پارٹی سے اختلاف ہوگا تو کبھی اسے عوام کے سامنے بحث کا موضوع نہیں بناؤں گا۔اگر پارٹی کے کسی فیصلے سے برملا اختلاف کروں اوراسے عوامی مسئلہ بنالوں تو مجھے جماعت چھوڑ دینا چاہئے۔نوازشریف قائد ہیں جو فیصلہ کریں گے وہ قبول ہوگا۔سیاسی جماعتوں میں گرے ایریاز ہیں۔نظریہ ضرورت عدلیہ،میڈیا اورسیاستدان استعمال کرتے رہے ہیں۔امید ہے مستقبل میں سیاست بہتر ہوگی سلیکٹرزاور سلیکٹڈ ماضی کا حصہ بن جائیں گے۔اے پی سی اوررہبر کمیٹی میں واضح کردیا تھا کہ ہم کسی دھرنے کا حصہ نہیں بنیں گے کیوں کہ ہم دھرنے کا شکار ہوچکے ہیں۔ نوازشریف کے باہرجانے میں دھرنوں کا کوئی دباؤنہیں تھا۔سوشل میڈیا تنقید کیلئے آسان فورم ہے۔جمہوریت کی بالادستی کیلئے لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پرنکلنا ہوگا۔مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے مزید بڑھ سکتی ہے

اپنا تبصرہ لکھیں