کارگل کے شیر کی کہانی


میاں منیر احمدباد

ہماری زندگی میں بے شمار مواقع ایسے آتے ہیں جب ملک کی سر حدوں کی حفاظت کے لئے اس کے جوانوں کو جان کے نذرانے پیش کرنے پڑتے ہیں۔ وطن کی سرحدوں کی حفاظت کے جذبے سے سرشار یہ غازی یہ پر اسرار بندے مصائب و آلام اور کٹھن راستوں سے گھبراتے نہیں بیسویں صدی، دنیا کی ہولناکیوں اور مصائب کی چشم دید گواہ تھی اس نے جنگ عظیم اول دیکھی، سلطنت عثمانیہ ختم ہوتے دیکھی، جنگ عظیم دوم کا نظارہ کیا۔ پاکستان بنتے دیکھا۔ عرب اسرا ئیل جنگ دیکھی۔سرد جنگ دیکھی، میزائل کی دوڑ دیکھی اس صدی کے آخری سال میں جنوبی ایشیا کی برف پوش پہاڑیوں میں اس نے ایک اور معرکے کا مشاہدہ کرنا تھا۔ ابھی میدان جنگ نے دیکھنا تھا کہ ” کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے”۔ ابھی وطن کے رکھوالوں نے آنے والی نسلوں کے لئے وفاؤں کے اور سبق لکھنے تھے۔ابھی کچھ نام سنہری حروف سے لکھنا باقی تھے۔ چشم فلک نے کچھ نئے نظارے دیکھنے تھے ابھی کچھ مومنوں نے رزمِ حق و باطل میں فولاد بننا تھا۔ ابھی اندلس کے میدان جنگ میں طارق بن زیاد کی دعا کے بقول دو عالم سے بیگانہ کرنے والی لذت سے آشنا جوانوں نے کلمہ حق کہنا تھا۔ ابھی لہو کو گرمانے والے کچھ ملی نغمے بننے رہ گئے تھے۔ ابھی کچھ عظیم ماؤں کے بیٹوں نے اپنے لہو سے وفا کی کہانیاں رقم کرنی تھیں ابھی کچھ شہیدوں کے والدین نے نشان حیدر لے کر اپنے سر کو اور بلند کرنا تھا۔ ابھی علامہ اقبال کے کچھ شاہینوں نے سربکف ہوکر پہاڑوں کی ہیبت کو رائی ثابت کرنا تھا۔ ابھی سرخ پھولوں نے سہری کی بجائے کفن بکس کی شان بننا تھا۔ ابھی شاعروں نے زمین سے یہ سوال پوچھنا تھا؟ مرد مجاہدوں کی چوٹی کی لسٹ میں کیپٹن کرنل شیر خان شہید کا نام آتا ہے،نام شیر اور لڑا ٹائیگر ہل پر،ڈر نام کی چیز اس کی ڈکشنری میں نہیں تھی۔ اسلام، پاکستان، اپنے والدین، علاقے، کورس (90۔پی ایم اے لانگ کورس) اور یونٹ سب کا نام بلند کیا ان کی یونٹ میں حوالدار لالک جان شہید نے بھی نشان حیدر حاصل کیا۔کارگل پر لکھی گئی کتاب ”وٹنس ٹو بلنڈر-کارگل سٹوری انفولڈز” کے مصنف کرنل (ر) اشفاق حسین لکھتے ہیں کہ ”کرنل” لفظ شیر خان کے نام کا حصہ تھا اوروہ اسے بہت فخر سے استعمال کرتے تھے ان میں حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ قوم کے اس بیٹے کا یوم شہادت ہر سال 5 جولائی کو منایا جاتا ہے۔
۔کیپٹن کرنل شیر خان شہید (1999–1970ء) خیبر پختون خواہ کے ضلع صوابی کے ایک گاؤں کرنل شیر کلی(پرانا نام نواں کلی)میں پیدا ہوئے۔ صوابی کی زرخیز زمین میں جنم لینے والے اس افسر نے اپنے ملک وقوم کا وقار بلند کیا 1999ء میں بھارتکے خلاف کارگل کے معرکے میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے پاک فوج کا اعلی ترین فوجی اعزاز نشانِ حیدرحاصل کیا۔یہ بات کم ہی دیکھنے میں آتی ہے کہ دشمن کی فوج اپنے مقابل کے کسی فوجی کی بہادری کی تعریف کرے اور اپنے حریف سے یہ کہے کہ فلاں فوجی کی بہادری قابل قدر ہے۔ حال ہی میں ایک انڈین مصنف ہرچنا بشٹ راوتکی کتاب۔” کارگل ان ٹولڈ سٹوریز فرام دی وار”کے مطابق کیپٹن کرنل شیر خان نے ایک بڑے دشمن کا مقابلہ انتہائی جرات اور بہادری کے ساتھ کیا۔دشمن کے کمانڈنگ آفیسر نے بھی ان کی بہادری کااعتراف کیا تھا۔جب کیپٹن شیر خان کاجسد خاکی واپس کیا گیا تو ان کی جیب میں انڈین بریگیڈیئرنے کاغذ کا ایک پرزہ رکھ دیا جس پر لکھا تھا: ”12 این ایل آئی کے کپتان کرنل شیر خان انتہائی بہادری اور بے جگری سے لڑے اور انھیں ان کا حق دیا جانا چاہیے۔”۔بی بی سی نے بھی ان کی بہادری پر ایک ڈاکومنٹری بنائی ان کے بھائی کے بقول وہ بہادر، نڈر، محنتی،با رعب شخصیت کا مالک اور سیر کرنے کا شوقین تھا۔ وہ مکمل طور پر اسلامی تعلیمات اور افکار پر عمل کرتے تھے۔ علاقے کے بچے بھی کیپٹن کرنل شیر خان کی طرح ملک کے دفاع کے لئے جذبہ شہادت سے سرشار ہیں۔کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے بڑے بھائی کی خواہش پر فیصل مسجد اسلام آبادکی بجائے انہیں ان کی والدہ کے پہلو میں صوابی میں دفن کیا گیاان کی آخر ی گاہ کے پاس ایک چھوٹا سا میوزیم بھی بنایا گیا ہے جہاں کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے زیر استعمال اشیاء رکھی گئی ہیں۔ ملک بھر سے کثیر تعداد میں لوگ وہاں دعا کے لئے آتے ہیں اور میوزیم کو دیکھ کر ان کے جذبے کو تقویت ملتی ہے۔کیپٹن کرنل شیر خان پی ایم اے میں اپنے پلاٹون میٹس اور کورس میٹس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر انہوں نے پی ایم اے میں بہترین اپوائنٹمنٹ حاصل کی۔جونیرز کے ساتھ بہت شفیق تھے۔ جب وہ لیفٹیننٹ تھے اور کسی کو فون پر اپنا پورا نام ”لیفٹیننٹ کرنل شیر خان”بتاتے تو دوسرا شخص انہیں کمانڈنگ آفیسر تصور کرتا کیپٹن کرنل شیر خان کے دادا,اپنے علاقے کی ایک معزز شخصیت اور معتبر انسان تھے۔ انہوں نے کشمیر میں 1948ء کی مہم میں حصہ لیا تھا انھیں یونیفارم میں ملبوس فوجی اچھے لگتے تھے چنانچہ ان کے یہاں جب پوتا پیدا ہوا تو انھوں نے کرنل کا لفظ ان کے نام کا حصہ بنا دیا۔کیپٹن کرنل شیر خان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔ انہوں نے آخری وقت تک دشمن کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے پورے ملک میں ان کے نام پر کالج، ہسپتال،چوک، ڈائننگ ہال، سٹیڈیم، پارکوں کے نام دیے گئے ان کے نام سی ڈاک کے ٹکٹ جاری ہوئے، انہوں نے اپنے نام کی لاج رکھی

اپنا تبصرہ لکھیں