تحریک پاکستان نے برصغیر کی خواتین کو اپنے حقوق کے تحفظ کا احساس دلایا۔ خاص طور پر مسلم خواتین میں بنیادی تبدیلی ”تحریک پاکستان“ کی بدولت پیدا ہوئی۔
1886ءمیں “آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانگریس“ کے موقع پر پہلے پہل ”تحریک اصلاح خواتین“ نے خواتین کیلئے جدید تعلیم کے حصول پر توجہ دلائی جس کے خواتین کی سوچ پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوئے۔ آنے والے وقت میں خواتین نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو کر اپنے آپ کوسیاسی میدان میں بھی منظم کرنا شروع کیا تا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے حمایت حاصل کر سکیں۔ javascript:falseقطر کو نیا وزیر اعظم مل گیا
1918ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس نے خواتین کے حق رائے دہی کی حمایت کی۔ 1928ءمیں برصغیر کی خواتین کو بھی رائے دہی کا حق مل گیا۔ 1935ءمیں چھیاسٹھ (66) لاکھ خواتین کو مردوں کے برابر حق رائے دہی مل گیا جنہوں نے اسی سال اپنے ووٹ کا استعمال کیا اور پہلی بار خواتین کو فیڈرل اسمبلی کی 250 میں سے 9 نشستیں اور کونسل آف سٹیٹ کی 150 میں سے 6 نشستیں مل گئیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد بھی بیداری نسواں کی تحریک جاری رہی کیوں کہ تحریک آزادی میں مردوں کے برابر جدوجہد کرنے کے باوجود ان کو وہ حقوق نہیں مل سکے جن کا وعدہ قائداعظمؒ نے کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیوں نہ ہوا؟ 1948ءمیں قومی اسمبلی کی ممبر خواتین نے خواتین کے معاشی حقوق کے تحفظ کے لیے بل تجویز کیا مگر بل کو اس وقت تک ایجنڈے میں شامل ہی نہیں کیا گیا جب تک ہزاروں خواتین نے اسمبلی چیمبر تک احتجاجی مارچ نہیں کیا۔ خواتین کی اس جدوجہد کے نتیجے میں حکومت نے 1955 ء میں رشید کمیٹی تشکیل دی اور پھر بالآخر خواتین کی جدوجہد رنگ لائی اور چھ سال بعد 1961ء میں ”عائلی قوانین“ کا بل اسمبلی میں منظور کیا گیا۔فلسفہ ”حکمت سے محبت “کا نام ہے
اس کے ساتھ ہی ”ویسٹ پاکستان مسلم پرسنل لاز“ کا راستہ بھی ہموار ہوا جس نے خواتین کے جائیداد کی وراثت میں حق کو تسلیم کر لیا۔ سیاسی میدان سے باہر بھی خواتین نے اپنے سماجی‘ سیاسی اور معاشی حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد جاری رکھی۔ اسی زمانے میں بیگم رعنا لیاقت علی خان نے آل پاکستان وومن ایسوسی ایشن (اپوا ) کی بنیاد رکھی جس نے عورتوں اور بچیوں کی تعلیمی‘ سماجی اور معاشی آگاہی کے پروگرام بنائے۔ 1954ء میں ”بزنس اینڈ پروفیشنل وومن کلب“ کی بنیاد رکھی گئی جس کے پلیٹ فارم سے عورتوں کو آمدن پیدا کرنے کے طریقے سمجھائے اور سکھائے جاتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ”انجمن جمہوریت پسند خواتین“ 1948ء میں قائم ہوئی جو مزدور خواتین جو فیکٹریوں میں کام کرتی تھیں ان کی تربیت‘ مساوی تنخواہوں‘ ٹرانسپورٹ کی سہولتوں اور خواتین کے ہوسٹل بنانے کے مطالبات منوانے کے لیے جدوجہد کرتی تھی۔ پاکستانی خواتین کی ترقی کے حوالے سے بتدریج دیگر تنظیموں نے بھی کام شروع کر دیا‘ جیسا کہ عورت فاﺅنڈیشن ‘ شرکت گاہ‘ ہوم نیٹ پاکستان وغیرہ۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاءنے اسلام کا نام لے کر خواتین کے خلاف امتیازی قوانین بنانا شروع کر دیئے مثلاً حدود آرڈیننس‘ قانون شہادت جیسے ظالمانہ قوانین۔ ان کو ختم کرنے کے لیے اور خواتین کے خلاف اسی قسم کے منفی رویوں اور قوانین کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے خواتین محاذ عمل (WAF) قائم ہوا جو آج بھی ایک لابی اور پریشر گروپ ہے جو خواتین کے حقوق اور برابری کے حق کے لیے آج بھی کام کر رہا ہے۔ تحریک انصاف کی کل زمان پارک تا داتا دربار ریلی کا شیڈول جاری
جب تک عورتوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے جدوجہد نہیں ہو گی‘ تب تک انہیں نظر انداز کیا جاتا رہے گا۔
پاکستان قائم ہوئے 75 سال ہو چکے ہیں مگر آج بھی عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے خواتین کو جنرل سیٹ کے لیے سیاسی جماعتیں ٹکٹ نہیں دیتیں بلکہ صرف ان چند خواتین کو ہی ٹکٹ دیا جاتا ہے جن کی موروثی سیٹس ہیں۔
اس وقت خواتین قومی اور صوبائی اسمبلیوں نیز سینیٹ میں موجود ہیں لیکن اس کی وجہ ہماری سیاسی جماعتیں نہیں ہیں کیوں کہ ا ن کا تو قومی زندگی میں خواتین کے فعال کردار اور ان کی ترقی کے حوالے سے کوئی وڑن ہی نہیں ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا تھا کہ جس ملک کی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ترقی کے عمل میں شریک نہیں ہوں گی ‘ وہ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ قائداعظمؒ کے اس فرمان سے روگردانی کی وجہ سے آج پاکستان دنیا کے دیگر ہمارے جیسے ممالک کے مقابلے میں ترقی کرتا نظر نہیں آتا۔