جموں و کشمیر پیپلز فریڈم لیگ کے چیئرمین اور سابق کنوینر آل پارٹیز حریت کانفرنس (علی گیلانی) محمد فاروق رحمانی‘ ایک مدبر اور دیوار سے پیچھے دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والے راہنماء اور تاریخ ساز جدوجہد کی علامت ہیں‘ نہائت علمی شخصیت ہیں‘ بہت کم بولتے اور بہت کم لکھتے ہیں مگر جب بولتے اور لکھتے ہیں تو سنگلاخ چٹانوں سے بھی ٹکرا جاتے ہیں‘ حال ہی مں ی انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے‘ جس میں کشمیر کی تاریخ سمو دی ہے‘ کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے جسے انہوں نے کتاب میں بیان نہ کیا ہو ان کی کتاب نے بہت کچھ کھول کر قاری کے سامنے رکھ دیا ہے کشمیر کے ماضی اور حال پر اپنی نئی کتاب ”کشمیر کے خون چکاں مہ و سال“ شائع کی ہے۔ تنازعہ، خون میں بھیگی جدوجہد آزادی کی کہانی ہے اور اس میں پانچ اگست کا درد بھی شامل ہے‘ جموں و کشمیر کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کر کے اسے بھارت کی وفاقی یونین کا حصہ بنائے جانے کے اثرات بھی بتا دیے ہیں‘یہ کتاب کشمیر میں بھارت کی طرف سے ریاستی دہشت گردی اور آباد کاری سمیت کشمیریوں اور فریقین کے کردار پر تنقیدی روشنی ڈالتی ہے۔اس میں جموں و کشمیر کے لوگوں کے حق خود ارادیت کے مطابق تنازعہ کے منصفانہ اور پرامن حل تک پہنچنے کے لیے کشمیریوں کو مضبوط کرنے کے طریقوں اور ذرائع پر کھل کر لکھا گیا ہے محمد فاروق رحمانی ایک کشمیری سیاست دان مصنف، مصنف، صحافی اور آل پارٹیز حریت کانفرنس کے مرکزی راہنماء ہیں وہ جموں و کشمیر پیپلز فریڈم لیگ کے چیئرمین بھی ہیں۔ وہ ہندوستانی حکومت کی طرف سے کشمیری عوام کے حقوق کو نظر انداز کرنے اور اس کے ”نسل پرست” اور ”مبہم” ایجنڈے کے حصول کے بارے میں آواز اٹھاتے رہے ہیں جو خطے کی تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی شناخت کو مٹانا چاہتا ہے۔
فاروق رحمانی کا تعارف کچھ یوں ہے
بانڈی پورہ، کشمیر انڈیا میں ابتدائی تعلیم حاصل کی‘ سری پرتاب سنگھ کالج سری نگر (ایس پی کالج) کشمیر یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ 1961 سے 1968 تک ہائر سیکنڈری اسکول کے استاد رہے۔سیاسی سرگرمیوں کے لیے ان کی زندگی کے قیمتی لمحات بھی کشمیری عوام کے لیے کی گئی جدوجہد کا نہائت قیمتی باب ہیں‘ صدر کشمیر سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن رہے‘1957-1960 نے 1960 کی دہائی میں کشمیر تحریک کی اہم سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ فروری 1972 میں لال چوک حلقہ سے جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کا اسمبلی الیکشن لڑا۔ ہندوستانی ریاستی مشنری کی طرف سے بڑے پیمانے پر دھاندلی کے بعد 72 ووٹوں کے فرق سے شکست پر انہوں نے ایک تاریخ ساز تحریر لکھی‘ ”1972 میں 72 کا فراڈ” کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔ اس سے پہلے وہ • سوشلزم اور اسلام (1967) کتاب لکھ چکے تھے فاروق رحمانی صحافت میں رہے‘ ایڈیٹر ہفتہ وار اذان سری نگر (1968-1973) تک کام کیا‘ اس کے بعدچیف ایڈیٹر روزنامہ اذان سری نگر (1973-1975) رہے‘ بعد ازاں ایڈیٹر ماہنامہ نصرت الاسلام (1976-1978) اور مدیر ماہنامہ البلاغ المبین 1980 تک رہے‘ ہفتہ وار افلاک سری نگر 1982 تا 1989 رک خدمات انجام دیں‘ اس کے بعد ان کی زندگی میں انگڑائی آئی اور مصنف بن گئے کشمیر کے خونی مہینے اور سال (اردو) آزادی کی تلاش: ایک اردو کتاب جو 1982 میں سری نگر میں شائع ہوئی اور 1994 میں اسلام آباد پاکستان میں دوبارہ شائع ہوئی۔شیخ عبداللہ کلی نقوش 1988 سری نگر‘ کشمیر مین زلزلی اردو پرچہ 1988‘ کشمیر پر زاویہ (اسلام آباد 1991) اس کے بعد صفر نامہ استنبول (اسلام آباد 1991) آزادی کی اوڈیسی (1996) تحریک کشمیر پسمان زار اور حال (اسلام آباد 1997)کشمیر بھنور میں اردو میں (اکتوبر 2000) کشمیر کی بے قابو ہوائیں (اسلام آباد 2002)
سیاسی وابستگی
جولائی 1978 سے جموں و کشمیر پیپلز لیگ کے چیئرمین۔• 1978 میں جے اینڈ کے پیپلز لیگ کے آئین کا مسودہ اور 1991 میں اس کا منشور۔• تحریک کشمیر (آزاد کشمیر چیپٹر) گیارہ جماعتی اتحاد (1991-93) کے کنوینر۔• پیپلز لیگ کا نام تبدیل کرنے کے بعد مئی 2003 میں جے اینڈ کے پیپلز فریڈم لیگ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔• مئی 2003 میں آل پارٹیز حریت (آزادی) کانفرنس (اے پی ایچ سی) میں شامل ہوئے۔• 17 نومبر 2003 کو متفقہ طور پر اے پی ایچ سی کا کنوینر منتخب کیا گیا۔
جیل کی زندگی
•1968-1970 میں مقبوضہ کشمیر میں پریوینٹیو ڈیٹینشن ایکٹ کے تحت گپکر اور بگی مہتاب سری نگر کے تفتیشی مراکز اور سنٹرل جیل سری نگر میں رہے‘ 1975- پولیس لائنز بارہمولہ اور سنٹرل جیل سری نگر میں MISA کے تحت رہے‘ 1980 پولیس اسٹیشن کوٹھی باغ ایس جی آر، کٹھوعہ جیل، سب جیل ہیرا نگر اور سی جیل سری نگر میں رہے‘ 1985-1986 J&K PSA کے تحت پولیس اسٹیشن بانڈی پور، پولیس لائنز بارہمولہ، ضلع۔ جیل بارہمولہ اور سنٹرل جیل سری نگر میں رہے‘ 1988 کوٹھی باغ اور سوناور پولیس اسٹیشنوں اور ہرینواس تفتیشی مرکز اور سنٹرل جیل سری نگر میں رہے‘ 1989-90 J&K PSA کے تحت تفتیشی مراکز گپکر، ہرینواس سری نگر اور پولیس اسٹیشن کوٹھی باغ سری نگر اور جموں جیل اور ہائی سیکورٹی ڈسٹرکٹ جیل ادھم پور میں رہے اس کے بعد ہجرت کی اور 1991 میں آزاد جموں و کشمیر آئے‘ عالمی فرم پر کشمیر کا مسلۂ اور مقدمہ لڑتے رہے ہیں‘ 4-8 اگست 1991 کو استنبول میں OIC وزرائے خارجہ کانفرنس میں شرکت کی‘ 9 دسمبر 1991 کو ڈاکار میں OIC سربراہی اجلاس میں شرکت کی۔ 9 جولائی 1994 کو کشمیر انٹرنیشنل کانفرنس بریڈفورڈ یو کے سے خطاب کیا۔ ستمبر 2003 اور 2004 میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں نیویارک میں کشمیر پر OIC وزرائے خارجہ کے رابطہ گروپ سے خطاب کیا۔ اور بین الاقوامی کشمیر کانفرنس کیپیٹل ہل واشنگٹن۔ میں شریک ہوئے‘ مارچ-اپریل 2004 میں جنیوا میں UNCHR کے 60ویں اجلاس میں APHC آزاد کشمیر/پاکستان چیپٹر کے سربراہ کے طور پر شرکت کی‘