مہاجرین کی رہائش پر اٹھنے والے اخراجات

برطانوی میڈیا کے مطابق طالبان کی جانب اقتدار سنبھالنے سے قبل افغانستان میں برطانوی افواج کے لیے کام کرنے والے ہزاروں افغان پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک ان کی نقل مکانی سے منسلک اخراجات کو کم کرنا چاہتے تھے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی ایک عدالت میں جمع کرائی گئی دستاویزات کے مطابق وزیر اعظم رشی سونک نے سرکاری محکموں کو ہدایت کی تھی کہ صرف اس صورت میں افغانوں کو منتقل کرنے کی اجازت دی جائے اگر ان کے پاس ہوٹلوں کے علاوہ کسی اور جگہ رہائش کا انتظام ہو۔

رپورٹ کے مطابق یہ اقدام ہوٹلوں میں مہاجرین کی رہائش پر اٹھنے والے اخراجات کو کم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔

https://www.dawnnews.tv/news/card/1206560

برطانیہ کی حکومت نے افغانوں کو ملک میں آباد کرنے کے لیے دو اسکیمیں متعارف کروائیں، پہلی افغان ری لوکیشن اینڈ اسسٹنس پالیسی ان افغانوں کے لیے ہے جو برطانوی افواج اور ان کے خاندانوں کے ساتھ براہ راست کام کرتے ہیں اور دوسری افغان سٹیزن ری سیٹلمنٹ اسکیم ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے برطانوی حکومت کے زیر انتظام سول اسکیموں میں کام کیا یا ان کا حصہ رہے۔

تاہم، جو زیادہ تر لوگ اسکیموں کے لیے کوالیفائی کر چکے ہیں، پاکستان میں غیریقینی صورتحال سے دوچار ہیں کیونکہ برطانیہ نے ویزوں کا اجرا بند کر دیا ہے، دی انڈیپنڈنٹ کے مطابق برطانوی مسلح افواج کے ساتھ کام کرنے والے تقریباً 2300 افغان باشندے کئی مہینوں سے اسلام آباد کے ہوٹلوں میں پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ انہیں نقل مکانی سے قبل برطانیہ میں رہائش کے لیے گھر تلاش کرنے کا کہا گیا ہے۔

نقل مکانی کے اہل دو افغان باشندوں نے حکومت برطانیہ کے خلاف برطانیہ کی عدالت میں مقدمہ دائر کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ نومبر 2022 میں رشی سونک کی جانب سے کیے گئے فیصلے کی وجہ سے ان کی دوبارہ آبادکاری میں تاخیر ہو رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پناہ گزینوں کی نمائندگی کرنے والے ٹام ڈی لا مارے کے سی نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم رشی سونک نے نومبر 2022 کے آخر میں برطانیہ آنے والے افغانوں کے لیے ہوٹلوں کا استعمال روک دیا تھا تاکہ پیسہ بچایا جا سکے۔

https://www.dawnnews.tv/news/card/1213350

اس فیصلے کے بعد وزارت دفاع نے لوگوں کو پاکستان سے برطانیہ لانے والی پروازوں کو روک دیا جس کی وجہ سے یہ خاندان پاکستان میں پھنس گئے ہیں اور اب انہیں پاکستان سے بھی نکالے جانے کا خطرہ ہے۔

افغان باشندوں کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ ان کے مؤکلوں کو پاکستان کی پولیس کی جانب سے گرفتاری کیے جانے کا خدشہ ہے اور وہ اسلام آباد میں اپنا ہوٹل نہیں چھوڑ سکتے۔

برطانیہ کی حکومت کے وکلا نے کہا کہ پاکستان میں رہائش مثالی نہیں لیکن مناسب ہے اور اسکیم میں شامل افراد کو کیس ورکرز تک رسائی حاصل تھی اور اس صورتحال میں حکومت کی تعلیم فراہم کرنے کی کوئی قانونی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔

پاکستان کی جانب سے تمام غیر قانونی غیر ملکی شہریوں کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کا الٹی میٹم دیے جانے کے بعد برطانیہ کی حکومت نے نقل مکانی کی رفتار بڑھا دی، دی انڈیپنڈنٹ نے رپورٹ کیا کہ 2 اکتوبر کے بعد سے 59 افراد کو برطانیہ لایا گیا ہے اور 470 مزید افراد کو مہینے کے آخر تک منتقل کیے جانے کی امید ہے۔

مدعی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 1900 کے قریب افغان بانشدے یکم نومبر کے بعد بھی پاکستان میں رہیں گے۔

برطانوی حکومت کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اہل افغانوں کو برطانیہ لانے کے وعدوں کا احترام کرتے رہے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ جب برطانیہ میں مناسب رہائش کا انتظام ہو جائے گا تو حکومت ان کے سفر کا انتظام اور رقم کی ادائیگی کرے گی۔

بی بی سی نے ترجمان کے حوالے سے بتایا کہ برطانیہ اب تک تقریباً 24 ہزار 600 لوگوں کو محفوظ مقام منتقل کر چکا ہے جن میں ہزاروں افراد ہماری افغان آباد کاری کی اسکیموں کے اہل ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں