بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com
نومبر کا چراغ روشن ہوتے ہی ہندوستان‘ ایران اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں محبان اقبالؒ کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ شخصیات اور اداروں کی طرف سے ہفتہ تقریبات میں اپنے اپنے انداز میں محسن ملت اور حکیم الامتؒ کو خراج عقیدت‘ اظہار ارادت کے سلسلے شروع ہو جاتے ہیں۔ وطن عزیز میں حضرت اقبالؒ سے عقیدت ومودوت کرنے والے قافلہ عشق میں بہت سے نام شامل ہیں۔ ان شخصیات کی بدولت آزاد کشمیر‘ گلگت وبلتستان اور اسلام آباد کے ساتھ چاروں صوبوں میں پیغام اقبال اور افکار اقبالؒ کے ترانوں کی گونج ہے۔ والد مرحوم ومغفور ڈاکٹر بشیر گورایا (1940-2023) کی حضرت اقبالؒ سے محبت اور وارفتگی میں غیر معمولی تھی وہ جب تک زندہ رہے مسلم لاءکالج سٹلائیٹ ٹاو¿ن اور الخیر یونیورسٹی بھبمر آزاد کشمیر میں حضرت اقبالؒ کی یادوں کے فانوس فروزاں رہے۔ ہم نے بڑے لوگوں اور نامور اقبال شناس صاحبان کو ان پروگرموں کی زینت بنتے دیکھا ۔محبان اقبالؒ کی گفتگو اور تحقیق سے شاعر مشرق ؒکی حیات اور ملی خدمات کے کئی پوشیدہ پہلو اجاگر ہوتے۔ حضرت اقبال سے منسوب ان تقریبات میں ہم نے کئی پروفیسر صاحبان کو مہمان شخصیات کے خطاب کے دوران نوٹس لیتے بھی دیکھا۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ اور علامہ خادم حسین رضوی ؒکی طرح ڈاکٹر بشیر احمد گورایا کی گفتگو بھی حضرت اقبالؒ کے تذکرہ جیل کے بغیر ادھوری رہتی ۔وہ اٹھتے ‘ بیٹتھے اور ملاقاتوں میں شاعر مشرقؒ کے افکار کو موضوع بناتے! نوجوانوں سے گفتگو میں پیغام اقبالؒ ان کا محبوب اور مرغوب مشغلہ رہتا۔ وافغان حال کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ ڈاکٹر اسرار‘ علامہ رضوی اور ڈاکٹر بشیر گورایا کی بات چیت میں حضرت اقبالؒ کا تذکرہ مائنس کر دیں تو ان کے پاس گفتگو اور حوالے کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ ان شخصیات نے قرآن وحدیث کے پیغام کو عام کرنے میں جگہ جگہ افکار اقبال کا سہارا لیا۔
والد محترم تو کہا کرتے تھے کہ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے لیے بزرگوں نے جو قربانیاں دیں ان کا اظہار مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے، افسوس ہے استحکام پاکستان کے لیے ہمارے ”بڑے“ نئی نسل کو متحرک نہ کرسکے یہ قومی نقصان ہے اور اس اغماص کی قیمت قوم کو ادا کرنا پڑ رہی ہے ۔ہمارے بچوں کو تحریک پاکستان‘ بانیاں پاکستان اور اکابرین پاکستان کی بابت آگاہی ہوتی تو آج ہم اطراف میں ہوں مسائل کا شکار نہ ہوتے!!
تھے تمہارے ہی آباء مگر تم کیا ہو
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے امت فرواءہو
ڈاکٹر بشیر گورایا کا کہنا تھا کہ حضرت اقبالؒ نے مسلم نوجوان کو دین کا ترجمان اور امت کا وارث قرار دیا، وہ یوتھ کو شاہین سے تشیج دے کر اسے بلند پرواز دیکھنا چاہتے تھے ان کا خیال تھا کہ علم وتحقیق کے میدان میں نوجوان کی بلندی کو سر اٹھا کر دیکھا جائے گا!!
شاہیں تیری پرواز سے جلتا ہے زمانہ
اس آگ کو اپنے پروں سے اور ہوا دے
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے ” تم سب اُمتوں میںسب سے بہتر اُ مت ہو جو لوگوں کی بھلائی کےلئے بھیجی گئی ہو، اچھے کاموں کا حکم کرتے ہواور بُرے کاموں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو“۔ علامہ اقبال ؒنے مذکورہ آیت کا حوالہ دیتے ہوئے 21مارچ 1932ءکو آل انڈیا مسلم لیگ کانفرنس منعقدہ لاہور میں اپنے صدارتی خطبے میںکہا“ تم دُنیا میں سب سے زیادہ قابل فخر تہذیب کے مالک ہو۔ تمہارے پاس دُنیا کا بہترین نظامِ حیات اسلام کی شکل میں موجود ہے تم دوسروں کی تقلید کےلئے نہیں بلکہ امامت اور رہنمائی کےلئے پیدا کئے گئے ہو“۔ علامہ اقبال کو صرف شاعر سمجھ لینا یا یہ کہ ان کے خیالات یا تصورات تمام کے تمام ان کے کلام میں مقید ہوچکے ہیں درست نہیں ہے ان کے فکر ونظر کابہت کم حصہ ان کے کلام میں منتقل ہوسکاہے اکثر ایسابھی ہواہے کہ بعض بالکل نئی باتیں ان پر بغیر کسی کو شش کے منکشف ہوجاتی تھیں ۔فقہ اسلامی میں اجتہاد کے مس¿لے پر بھی اُنہوںنے انگریزی میں بھی کچھ لکھاتھا۔ اُنہوںنے ایک موقع پر فرمایا ”میں مسلمان ہوں میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلائل پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن کریم نے تجویز کیاہے۔ اس میں شک نہیں کہ سرمایہ داری کی قوت جب حدِاعتدال سے تجاوز کر جاتی ہے تو وہ دُنیا کےلئے ایک لعنت ہوجاتی ہے لیکن دُنیا کو اس کے مضر اثرات سے نجات دلانے کا طریقہ یہ نہیںہے کہ معاشی نظام سے اس کو خارج کردیاجائے جیسا کہ بالشیوک تجویز کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس قوت کومناسب حدود کے اندر رکھنے کےلئے قانون وراثت اور زکوٰة وغیرہ کانظام تجویز کیاہے“۔ آپ نے 1937ءمیں قائداعظم محمد علی جناح ؒ کو ایک خط لکھاتھا جسکا متن میں تھا” مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل صرف اسلامی آئین اور اسلامی قانون میںہے“۔ ایک نئی مملکت کے قیام کے بارے میں کہا” میری خواہش ہے کہ پنجاب ، صوبہ سرحد ،سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے خواہ یہ سلطنت برطانیہ کے اندرخود اختیاری حاصل کرے خواہ اسکے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتاہے اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنی پڑے گی ۔ حکیم لامت نے خطبہ الہ آباد میں واضح کردیاتھا کہ ہندوستان میںبہت فرقے بستے ہیںجو لسانی اور ثقافتی اعتبار سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی اپنی پرانی تہذیب ہے جو اُسے باقی ماندہ قومو ںپر ممتاز کرتی ہے۔ مذہب سے بیگانگی کے باعث ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت جاتی رہی اب اس غلطی کودہرانا نہیں چاہئے۔مخلوط انتخابات کو آپ نے اسلئے مسترد کردیاتھا کہ مغربی ممالک کی طرح ہندوستان میں صرف ایک قوم کی بجائے مختلف قومےں آباد ہےں اس لئے ےہاں مغربی جمہورےت نہےں چل سکتی چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کےلئے علیحدہ اسلامی ریاست کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ اسی میں ہندوستان اور اسلام کابہتر مفادہے اور ہندﺅوں کو ہندواکثریتی علاقوںمیں ایک الگ حکومت بنانے کا حق حاصل ہے۔ اپنے زندگی کے آخری ایام میں مولانا محمد علی جوہر اور سر شفیع کی وفات، ابوالکلام آزاد اور ڈاکٹر انصاری کی کانگرس میں شمولیت اور قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے انگلستان میں قیام کی وجہ سے
ورلڈکپ: بنگلورو میں بارش شروع، بچ کو ڈھانپ دیا گیا
مسلم لیگ کی تمام ترذمہ داریاں علامہ اقبال پر آن پڑی تھیں۔ اُسوقت آپ کی صحت بھی جو اب دے رہی تھی اور بینائی بھی کافی کمزور ہوچکی تھی چنانچہ ڈاکٹر محمد اقبا ل نے قا ئداعظم ؒ کو ایک خط لکھا اور تمام صور ت ِحال سے آگاہ کر دیاجنہوںنے آکر مسلم لیگ کی تنظیم نو فرمائی اور اُسے فعال بنایا جسکی بدولت مملکت پاکستان کاقیام ممکن ہوا۔
افسوس‘ ہماری غفلت‘ عدم دلچسپی اور قومی تساہل پسندی کے سبب جنریشن گیپ کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ آج موبائیل اور انٹرنیٹ کی ”برکات “نے ایک چھت تلے رہنے والوں کو ایک دوسرے سے ”کوسوں“ دور کر دیا۔ ٹیکنالوجی کی بدولت ہم بظاہر گلوبل ویلج کا حصہ ہیں لیکن حقیقت میں اس ٹیکنالوجی نے ہم سے ہمارے رشتے اور روایات چھین لی ہیں۔ ہمارے بچے اپنے اکابرین کے فن اور ان کی خدمات اور اپنے شاندار ماضی سے لاتعلق ہورہے ہیں ۔چند برس قبل ایک شام ڈاکٹر بشیر گورایا کی اشک آلودہ نگاہوں کا سبب پوچھا تو غمزدہ ہو کر ٹی وی چینل کے پروگرام کی طرف اشارہ کیا جس میں کمپئر کی طرف سے حضرت اقبالؒ کی ولادت کی تاریخ کے سوال پر دس سالہ طالب علم نے خاموشی اختیار کی ”ہم واقعی اپنے بچوں کو بانی پاکستانؒ اور مصور پاکستان ؒکے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتے“ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ والدین اور اساتذہ کرام دس برس تک اس طالب علم کو وطن دوست نہ بنا سکے