علامہ اقبال جن کو پاکستان میں مصور پاکستان کے لقب سے بھی پکارتے ہیں ، جس طرح کشمیر سے محبت رکھتے تھے، اس کی زبوں حالی اور غلامی کا خاتمہ چاہتے تھے، اسی طرح وہ فلسطین کے مستقبل کے لئے بھی پریشان تھے، کیونکہ ان کی زندگی میں مغربی طاقتوں نے سلطنت عثمانیہ توڈ کر آپس میں تقسیم کر ڈالی تھی اور فلسطین کو برطانیہ کے تسلط میں دے دیا تھا۔ اس بندر بانٹ کا نام منڈیٹ تھا۔ برطانیہ نے اپنے دور تسلط میں فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی ٹھان لی اور یہودیوں نے صیہونی تحریک کا آغاز کیا۔ سابق عثمانیہ سلطنت میں جہاں کہیں یہودی آباد تھے، انہوں نے فلسطین آکر یہاں بسنا شروع کردیا۔ برطانیہ نے ان کی خوب مدد کی۔
برطانیہ کے منڈیٹ کے زمانے میں 1931 میں اقبال نے فلسطین کا دورہ کیا ۔انہیں مو تمر عالم اسلامی نے مدعو کیا تھا تاکہ فلسطین کی تقسیم کے برطانوی منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے حکمت عملی وضع کی جاسکے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں کہ “اس وقت بیت المقدس میں عربوں اور یہودیوں کے تعلقات نہایت کشیدہ تھے۔ حکومت برطانیہ صیہونیوں کی مدد کر رہی تھی اور ان کی بے پناہ دولت کے سبب مقامی فلسطینی غریب مسلمان ان کا مقابلہ نہ کرسکتے تھے۔ ساحلی مقامات اور دیگر مراکز پر قبضے کے بعد فلسطین کی تجارت و زراعت پر یہودی بڑی سرعت کے ساتھ حاوی ہوتے چلے جا رہے تھے،،
فلسطین کے مفتی اعظم مفتی سید آمین الحسینی چٹان کی طرح ڈٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے یہودیوں کی مخالفت کے باوجود موتمر کو کامیاب کرایا اور ڈاکٹر اقبال بے حد خوش ہوئے۔
ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں کہ ” اقبال نے بیت المقدس میں مختلف مقامات مقدسہ کی زیارت میں کچھ وقت گزارا۔ جبل زیتون جہا ں ایک روایت کے مطابق حضرت عیسی ا نے وعظ کیا تھا، حضرت مریم ع کا روضہ، بستان جسمانی جہاں حضرت عیسٰی کو گرفتار کر دیا گیا، حضرت زکریا اور حضرت داؤد علیہ السلام کی قبریں، بیت المقدس کے دروازے اور دیگر مقامات کی زیارت کی،،۔
علامہ اقبال نے موتمر کے اجلاس سے اپنے خطاب میں عرب نوجوانوں کے جذبے کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ عربی نوجوان بلندی مرتبت کی روح صادق سے معمور ہیں۔ میرا عقیدہ ہے کہ اسلام کا مستقبل عرب کے مستقبل کے ساتھ وابستہ ہے اور عرب کا مستقبل عرب کے اتحاد پر موقوف ہے،، ۔
اقبال رح نے جاوید نامہ میں عرب کے حکمرانوں سے یوں خطاب فرمایا ہے۔
اے فواد! اے فیصل! اے ابن سعود
تا کجا بر خویش پیچیدن چو دود
زندہ کن در سینہ آں سوزے کہ رفت
در جہاں باز آور آں روزے کہ رفت
فلسطین میں علامہ اقبال فلسطینی عربوں کے جوش و خروش سے متاثر ہوئے۔ بعد میں انہوں نے فرمایا۔
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش تیرے وجود میں ہے
تری دوا نہ جنیوا میں ہے ، نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی میں امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے۔
آج فلسطین سرزمین انبیاء کرام کے مسلمان صیہونی اور مغربی طاقتوں کی ملی بھگت سے موت و حیات کی قیامت خیز کشمکش میں مبتلا ہیں اور پوری امت مسلمہ کی جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ سامنے 57 مسلم ریاستیں ہیں، اور عرب حکومتوں کے پاس مال و دولت کے بے پایاں خزانے ہیں، مسلم ریاستوں کے پاس جدید ترین فوجی طاقت ہے۔ کیا یہ سب کچھ ہوتے ہوئے غزہ کے فلسطینیوں کو اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ ڑ نا چاہئے تھا۔ اسرائیل، یورپ، لندن اور امریکہ یہ طاقتیں جو فلسطینیوں کو غزہ سے جبر کر کےنکالتے ہوئے ان کے بچوں بچیوں کا خون بھی آسمان سے موسلا دھار بارش کی طرح گرا رہے ہیں۔ کیا اس کا حل ریاستوں کی خاموشی اور غزہ والوں کی جبری بے دخلی ہی تھا؟
پاکستان تو مصور پاکستان علامہ اقبال کے فرمودات کا علمبردار ہے۔ اسکے حکمرانوں، سیاست دانوں اور مقتدر قومی اداروں کے فرائض کیا بنتے ہیں، ان فرائض کو نبھانے میں دیر نہ کیجئے اور قائداعظم اور اقبال کی روحوں کو پریشان نہ کیجیے۔
افسوس ہے کہ مجاہدین فلسطین کے ساتھ ایفائے عہد نہیں ہوا اور غزہ خاک و خون میں لت پت ہوگیا – جو حکمران یہ خیال کرتے ہوں گے کہ وہ محفوظ قلعوں میں ہیں۔وہ سمجھ لیں کہ خیر نہیں ہے، صیہونی اور مغربی طاغوت سب کو مٹانے یا اپنا باجگزار بنانے کا عزم کرچکا ہے۔ جس طرح غزہ نے اللہ اور رسول ص ع کے ساتھ اپنا عہد نبھایا، باقی عرب اور غیر عرب مسلم ریاستیں بھی اختلافات بھلا کر اسی طرح عہد نبھائیں ، اپنی پالیسیاں از سر نو مرتب کریں اور مقدس مقامات کو بچائیں، آزاد کرائیں اور عالم انسانیت کو صیہونی نسل پرستی کے عفریت کے خطرے سے محفوظ کریں۔غزہ سے فلسطینی پشتنی عربوں کو وطن بدر کرنے اور مختلف ممالک میں ان کو تقسیم کرنے کی کسی قیمت پر اجازت نہ دیں۔
یا اللہ! وہ طاقت ، خلوص، اہلیت اور ایمان عطاکر۔جو مسلم ریاستوں کو موجودہ حالات میں کامیابی کے منازل طے کرانے میں مدد بخشے۔ اس موقعہ پر ہمارے لئے دنیا کے وہ کروڑوں غیرمسلم عوام باعث حوصلہ ہیں، جنہیں صیہونیت کے عفریت اور تباہ کن مغربی پالیسیوں کا مکمل ادراک ہے اور وہ اپنے اپنے ملکوں میں سرکاری پالیسیوں کے خلاف سمندری طوفان کی طرح گرج رہے ہیں۔ اگر یورپ اور امریکہ نے اپنی موجودہ طاغوتی پالیسیاں نہیں بدلیں، تو دنیا ایک نئی کروٹ لے کر رہے گی۔ و ما توفیق الا باللہ!