نہ جانے کوئی شہر پرسان حال کیوں نہیں

نعیم سندھو

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے‘ باغ تو سارا جانے ہے‘ یہ بات اسلام آباد کی صلعی انتظامیہ‘ سی ڈی اے اور قانون نافذ کرنے والے دیگر سول اداروں پر ضرور صادق آتی ہے‘ تجاوزات نے شہر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے‘ جس بھی دکان کے سامنے تجاوزات ہیں‘ سمجھیں کہ اسے ہر ماہ تجاوزات کرنے والا تیس سے چالیس ہزار روپے ماہانہ دے رہا ہے‘ شہر کے ہر سیکٹرزکی ہر چھوٹی بڑی مارکیٹ میں‘ ہر دکان دار نے اپنی دکان کے سامنے برآمدے اور فٹ پاتھ پر کوئی نہ کوئی تجاوزات کرنے والا بٹھایا ہوا ہے‘ یوں سمجھ لیجیے اسلام آباد جہاں جہاں سی ڈی اے کا دائرہ اختیار ہے‘ وہاں وہاں تجاوزات ہیں‘‘ کسی جانب قانون کی عمل داری نظر نہیں آرہی‘ میلوڈی مارکیٹ میں تو تجاوزات کی کوئی کل ہی سیدھی نہیں ہے‘ یہاں سی ڈی اے نے مجبور ہوکر دکان داروں کے لیے ایک باؤنڈی للائن لگادی کہ اس سے آگے نہیں آئیں گے مگر مجال ہے کہ اس لائن کی کوئی پابندی کرتا ہو‘ یہ تجاوزات شہر میں بہت ہی بڑی لعنت بنتی جارہی ہے‘ پمز ہسپتال سے لے کر شہر کا کوئی فٹ پاتھ محفوظ نہیں رہا‘ المیہ یہ ہے کہ جو لوگ پہلے سے تجاوزات کرتے چلے آرہے ہیں‘ یہی لوگ اسے اپنا ٹھیہ بنا کر دوسروں کو کرائے پر بھی دے رہے ہیں وہا کیسا نرالہ کام ہے‘ زمین سرکار کی‘ کرایہ لینے والے نجی لوگ“یہ صورت حال تو نہائت ہی خطرناک ہے اور یہ اسی وقت بہتر ہوگی جب اس معاملے پر سی ڈی اے کی جانب سے زیرو ٹارلینس ہوگی‘ شہر کے مسائل کے حوالے سے گفتگو تو بہت کی جاسکتی ہے تاہم چند ضروری گزارشات ہی کافی ہیں عمومی مشاہدے میں یہ بات آتی رہتی ہے کہ شہر میں کسی سڑک کے کنارے‘ کسی فٹ پاتھ کے کنارے یا کسی پارک میں‘ جہاں جہاں سوکھے درخت ہیں‘ یا جہاں شہر کے کچھ ریمورٹ ایریا میں ایسے درخت ہیں‘ ان درختوں کو ایک لکڑی چور مافیا مسلسل چوری کرتا جارہا ہے اس کام میں مافیا ملوث ہے جو درختوں کی کانٹ چھانٹ کے نام پر انہیں آہستہ آہستہ کاٹتا رہتا ہے اور موقع پاکر اس کی لکڑی اٹھالے جاتا ہے اور اسے فروخت کردیا جاتا ہے یا جلانے کے لیے لے جاتا ہے‘ یہ معاملہ نہائت ہی توجہ طلب ہے‘ بہتر یہی ہوگا کہ جو ٹرک گرے ہوئے‘ ٹوٹے ہوئے درخت اٹھائے اس پر سی ڈی اے کی باقاعدہ سٹیمپ لگی ہوتو درست‘ دوسرے ہر نجی ٹرک کو پکڑ لیا جائے اور نہائت سخت مانیٹرنگ کی ضرورت ہے‘ شہری حلقے کہتے ہیں کہ جس دن سی ڈی اے میں‘ دلیر‘ اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے والا سربراہ آگیا یہ کام اسی روز ہی بند ہوگا‘ ورنہ کوئی امید نہیں ہے‘ پمز ہسپتال کی بات ہم نے کی‘ پمز ہسپتال کے سامنے ایمبولینس فٹ پاتھ پر اور سامنے کھلے میدان میں کھڑی رہتی ہیں‘ لیکن یہ ٹھکانہ اب کمرشل ہوگیا ہے کہ لوگوں نے اس جگہ کو ایمبولینس کی خرید و فروخت کا شو روم بنالیا ہے‘ اس معاملے کی پہلے خفیہ تحقیقات کی جائیں اور جو بھی ملوث ہو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے‘ تیسری بات شہر کی تمام مارکیٹوں میں گاڑیاں دھونے کا دھندہ عروج پر ہے‘ یہ تو بند ہونا چاہیے‘ مارکیٹوں میں جہاں جہاں آٹو شاپس ہیں‘ وہاں وہاں برآمدوں اور فٹ پاتھوں کا بیڑہ غرق ہوگیا ہے‘ یہ معاملہ توجہ طلب ہے اس سے اہم مسلۂ توجہ طلب ہے کہ شہر میں آوارہ کتوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے‘ کس کس مسلۂ کا ذکر کیا جائے؟ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے‘ راولپنڈی اور اسلام آباد کو باہم ملانے والی شاہراہ آئی جے پی روڈ ہے اور سری نگر ہائی وے اسلام آباد اور راولپنڈی کو گولڑہ موڑ کے قریب باہم ملاتی ہے‘ راولپنڈی میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 99 فی صد رکشہ رجسٹریشن کے بغیر روڈز پرچلتے ہیں ایک بڑی تعداد ایسی بھی جس نے جعلی نمبر پلیٹس لگارکھی ہیں‘ لیکن یہ رکشا راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والی آبادیوں‘ جیسا کہ آئی ٹین‘ آئی الیون‘ مارگلہ ٹاؤن‘ چک شہزاد‘ سیکٹر جی تیرہ‘ سیکٹر جی چودہ‘ سیکٹر آئی چودہ میں باقاعدہ سواریاں لے کر آتے ہیں‘ یہ رجسٹریشن کے بغیر چلتے ہوئے رکشہ سیکورٹی ٹھریٹس ہیں‘ یہ گزارشات حکام کی توجہ کی مستحق ہیں

اپنا تبصرہ لکھیں