کیوں کر ختم ہو سکتا ہے _مولانا فضل الرحمان اورعمران خان کی قربتیں بڑھنے کا راز کیا ہے ؟؟سراج الحق کے سادہ سے استعفیٰ تک جماعت اسلامی نے ارتقائی سفر میںتاخیر کیوں کی ؟؟مسلم لیگ ن کی مجبوریاں ہیں کیاحکومت بنانے کی _عبدالمتین اخونزادہ نےسلگتے سیاسی و سماجی سوالات کا تجزیہ کیا ہے _


08 فروری کے انتخابات نے یکسوئی اور آسانی کے بجائے دھام دم مست قلندر والی صورتحال اختیار کی ہے مولانا فضل الرحمان کے انکشافات سامنے آگئے ہیں اب باری باری سیاست دان اور باخبر شخصیات اسٹبلشمنٹ کو اپنے مزمومہ بیانیہ کے لئے لتاڑنے کا مشق شروع کر رہے ہیں ویسے بھی پاکستان جیسے کمزور ترین معاشی و معاشرتی صورت حال والے ملک میں اس طرح کے تماشوں کے لئے زیادہ وقت نہیں ہوتا ہے اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے مہنگائی اور بد انتظامی نے عوام کی اکثریت کی رہی سہی قوت خرید ختم کر دی ہے اگرچہ 09 مئی 2023 ء سے 09 فروری 2024ء کے نو مہینوں میں پاکستانی قوم نے شعور و ادراک کا انمول سفر طے کرلیا ہے بانی تحریک انصاف قیدی نمبر 804 ان نو مہینوں میں زیادہ مؤثر اور باوقار لیڈر شپ کا انداز اختیار کر چکا ہے 09 مئی اب زیادہ قابل بحث و مباحثہ نہیں رہا ہے مولانا فضل الرحمان نے درست تجزیہ کیا ہے ، سابق وزیر اعظم پاکستان و بانی تحریک انصاف جناب عمران خان نے انسانی پیدائش کے فطری دورانئے کے وقت تک یعنی نو مہینے صبر و شکر کے گزار لیئے ہیں 08 فروری 2024 ء کو پاکستان کے بارہویں انتخابات نے ایک نئی کہانی مرتب کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے اگرچہ گیلپ کے ڈائریکٹر جناب اعجاز شفیع گیلانی کے مرتب شدہ کتاب گیارہ کہانیاں ایک سبق میں پیچلھلے گیارہ انتخابات کے ملتے جلتے اسباق کا تجزیہ کیا ہے لیکن یہ انتخابات جوہری طور پر معاشرتی و سماجی شعور کی بیداری و ارتقاء اور انسانی نفسیات و ذہانت کے استعمال کے حوالے سے تاریخی ثابت ہوسکتے ہیں عمران خان نے بنیادی طور پر اسٹیٹس کو فریز کرنے کا سفر طے کیا ہے جس کی طرف اب بادل ناخواستہ باچا خان اور ولی خان کے وارث ایمل ولی خان اور مولانا فضل الرحمان نے ضروری فیصلے کئے ہیں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی بشمول مسلم لیگ ن ابھی گذارا کے سیاست و بصیرت پر قانع ہیں سیاسی و سماجی شعور کے سست رفتار سفر سمجھنے کے لئے اس کشمکش کے موقع پر اپنے سیاسی سفر کا دلیچسپ داستان پڑھنے والوں کی نظر کرتا ہوں 2013 کے انتخابات میں سید منور حسن مرحوم جماعت اسلامی کے امیر تھے اور میری ذمہ داری بلوچستان کے صوبائی امیر کی تھی جماعت اسلامی کے لئے انتخابات کبھی بھی اچھے نہیں رہے، نتائج آنے کے بعد بدترین شکست وریخت پر میں نے جمہوری و انتخابی سیاست و بصیرت کے بالکل معمولی تقاضے کے طور پر صوبائی امارت سے استعفیٰ دیا اور مرکزی امیر و دیگر عہدیداران کی استعفیٰ کا مطالبہ کیا یہ فیصلہ میرے سیاسی و تحریکی سفر کے لئے اعزاز و اکرام کے بجائے جان لیوا ثابت ہوا بادش بخیر 2018 ء کے الیکشن میں سراج الحق نے دوبارہ وہی شکست و احساس کمتری کا منظر دہرایا تو میں نے سیاسی طالب علم کی طرح ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تو وہ جز بز ہوئے اور کہا کہ یہ ہماری روایات میں نہیں ہے 2024 ء کے انتخابات میں وہ استعفیٰ تک پہنچے لیکن تاخیر سے موقع ضائع ہونے کے بعد وہ عارضی استعفیٰ دے چکے ہیں جسے مرکزی مجلس شوریٰ نے منظور نہیں کرنا ہے اس لئے کہ ان کی دس سالہ امارت و آمریت کا دورانیہ اپریل میں ختم ہو رہا ہے آپ تصور کریں کہ پاکستان میں جمہوریت اور انسانی نفسیات کے مطابق بامقصد و نتیجہ خیز سیاست و بصیرت کے لئے ارتقائی سفر کتنا سست روی کا شکار ہے یہی حال میاں نواز شریف و اعلیحضرت آصف علی زرداری کا ہیں اس لئے وقت و صلاحیتوں کے ادراک و احساس کئے بغیر قومی توانائیاں ضائع ہونے میں ہر انتخاب اپنا حصہ ڈالتا ہے-
پی ڈی ایم کے مجموعی قیادت کے لئے سارے انتظامات کے باوجود یہ انتخابات زیادہ سود مند ثابت نہیں رہا اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ و بقا کے لئے لڑنے والی سیاسی جماعتیں نوجوان ووٹرز کے ہٹ پر رہے مذہبی و جاگیر دار اشرافیہ کا طلسم بھی پاکستان میں حالت نزع میں ہیں جبکہ عسکریت و آمریت پسندوں کے دن بھی گننے لگے ہیں لسانیات اور فرقے بازی کے علمبردار تنظیموں اور ان کے سرپرستوں کے لئے بھی ضروری ذہنی و فکری مزاحمت کا آغاز ہوا ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ بھوک و سماجی نا انصافی ناقابل برداشت ہو کر رہ گئی ہیں البتہ ابھی طرز حکمرانی کو مثالی بنانے کا ماڈل پاکستانی قوم کو سمجھ نہیں آرہا ہے آزاد امیدواروں کے شکل میں پی ٹی آئی کی نیم پختہ حکومت بنتی ہے یا پی ڈی ایم کے کوچومر سے مخلوط حکومت قائم ہوتی ہے اچھی و مثالی طرز حکمرانی، جس میں غربت پر قابو پایا جائے اور ٹیکنالوجی بیس ٹریڈ کے لئے اقدامات ممکن ہوسکے باڈر ٹریڈ کے راستے کھولنے کا اہتمام ہو اور خواتین اور بچوں و بچیوں کے لئے ضروری کردار و عملی اقدامات اٹھانے کا راستہ اختیار کیا جائے ابھی شائد خواب ہی ہے مخلوط حکومت قائم ہونے کے بعد مہنگائی کا طوفان سر پر کھڑا ہے اور کمزور ترین طرز حکمرانی سے زیادہ مسائل و مشکلات ابھرنے والے ہیں لیکن جمہوریت کے رواں سفر یعنی رواں ندی سے ہی نئے اور پرانے پاکستان کا بحث ختم ہو کر حقیقی پاکستان کا سفر شروع ہوسکتا ہے _ معاہدہ عمرانی پر عمل درآمد کی ضمانت کا یہی راستہ ہے

اپنا تبصرہ لکھیں