قلم کار کی آواز نا پید ہے

قابل احترام و لائق تحسین
قلم کار خواتین و حضرات

السلام علیکم
و رحمۃ اللہ وبرکاتہ-

21 ویں صدی کے معروف مصنف و دانشور پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان کا خیال ہے کہ
قلم کار کی قلم رکی جارہی ہے ، کیونکہ قلم کار کی آواز نا پید ہے وجہ اس کی پبلشرز یہ بیان کرتا ہے کہ کاغذی کتاب کا اب گاہگ کم ہوگیا ہے اور عام قاری یہ سوالات اٹھاتا ہے کہ کتاب بہت منگہی ہوگئی ہے _
دونوں فریق درست کہتے ہوں گے البتہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے اندر دو پبلشرز دن رات کتابیں شائع کررہے ہیں ان کے ڈس پلے سینٹر میں کتابوں کو دیکھنا ایک دن میں ممکن نہیں ہے –
کتاب تو وہاں بند ہونی چاہیے تھی جہاں سارا انتظام کمپیوٹرائزڈ صورت میں ہے جبکہ برقی کتاب بھی عام ہوگئی ہے اس سب کے باوجود,,قلم کاری ،، رکی نہیں ہے اور نہ ہی قلم کاروں کی آواز ناپید ہے _ اس کی وجہ قانون و ضابطے موجود ہیں اور ان پر عمل ہوتا ہے _
دوسرا کتاب پڑھنے کی عادت کاغذی ہو یا برقی ، ختم نہیں ہوئی ہے _

پاکستان و آزاد کشمیر میں قلم کاری ، قلم کاروں ، دانشوروں کے حقوق دانش کی حفاظت کا ریاستی سطح پر باقاعدہ نظام نہیں ہے جبکہ پرائیویٹ سطح پر قلم کاروں و دانشوروں کے ساتھ پبلشرز حضرات کی طرف سے کوئی باقاعدہ نظام قائم نہیں ہے _ یہی وجہ ہے کہ قلم کار رلتے دیکھے ہیں _
یہ درست ہے کہ پبلشرز کی ضرورت نہیں ہے کہ دانش ور کوئی تخلیقی کام کریں یا تدوینی کام کریں مگر قوم و ریاست کی زندگی قائم نہیں رہتی اگر جاریہ وقت کی مناسبت سے,, تخلیقی ،،
کام نہ ہوں _
تدوینی کام ہی دراصل
,, تخلیقی ،، کام کی بنیاد بنتے ہیں -ضرورت یہ ہے کہ ریاست و حکومت لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرے ، مگر کیسے ؟ یہ سوال ہے -؟؟

یہ ایک قومی مسئلہ ہے ، اسے محض قلم کاروں اور پبلشرز اور قاری کا مسئلہ نہ سمجھا جائے ،
ریاستی سطح پر یہ مجرمانہ کوتاہی شمار ہوتی ہے اگر قوم کو تخلیقی راہوں پر استوار اور برقرار نہ رکھا جاسکے _
ہم چاہتے ہیں کہ
,, قلم کار دانشوروں ،،
کی آواز کو یکجا کرکے طاقت ور آواز کی صورت دی جائے جس کے لئے کئی راستوں میں سے ہم باوقار اور سنجیدہ راستہ اختیار کریں گے _
@ حکومت وقت تک باقاعدہ اور سنجیدہ انداز میں آواز پہنچانا کہ وہ قلم کار دانشوروں کی دانش کا احترام کیسے کرسکتے ہیں ؟ اور اگر یہ لوگ لائق عزت ہیں تو ان کی عزت و ضرورت کا خیال کیسے رکھا جاسکتا ہے اور یہ کہ اس کے لئے قانون سازی کی صورتیں کیا ممکن ہیں -؟

@ دوسرا قلم کار دانشور ایسا انتظام خود,, تخلیق ،، کریں جو باہم رابطے کا ذریعہ بنے ، علم و ادب میں ہر صنف کے دانشوروں کا کم از کم رابطے بن سکے ، جہاں تک ممکن ہو سکے ، شائع شدہ کتاب آپس میں تبادلہ کریں ، تحقیق و تخلیق میں ایک دوسرے کی معاونت کریں _
ممکن ہو تو کم از کم ایک کتاب ، مصنف سے خریدیں ، کسی اشاعتی مرکز کی طرف بڑھیں اور حکومتی گرانٹ و سرپرستی کو ممکن بنائیں ، یہ پبلک پرائیویٹ صورت بھی اختیار کر سکتا ہے سرکاری اداروں میں اپنی ایک حساسیت ہوتی ہے ، انھیں چھیڑنے کی ضرورت نہیں ہے –

@ رابطہ کاری سے ہی قلم کار دانشور آگے بڑھ کر دونوں سمتوں میں کام کر سکتے ہیں –

اس ضمن میں ہم رابطہ کاری کے لئے نوجوان قلمکاروں اور مرد و خواتین سمیت تمام طبقات و دائروں سے ابتدائی رابطے کا آغاز غیر روایتی طریقہ کار اپنائیں گے اس کے بعد اجتماعی تفکر و مشاورت سے لائحہ عمل مرتب کیا جاسکتا ہے _

پہلے مرحلے پر دلچسپی رکھنے والے قلم کار دانشوروں کے تفصیلات و اعداد و شمار ( نام و نمبرز ، شہر و پتہ اور تصویر و قلم کاری کا میدان و دائرہ کار) مربوط ڈائریکٹری میں
لانا چاہتے ہیں _

اپنا تبصرہ لکھیں