میا ں منیر ا حمد
حکومت کو آئی ایم ایف سے جاری معاہدے کے تحت قرض کی آخری قسط اور کئی ارب ڈالر کا ایک
اور پیکیج حاصل کرنے کیلئے بات چیت کا آغاز کرنا ہے پی ٹی آئی کی قیادت نے مالیاتی ادارے کو پاکستان سے اس وقت تک مذاکرات نہ کرنے کے مطالبے پر مبنی خط لکھ کرجب تک مبینہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات نہ ہوجائے، ایک ایسے بحران کی شکار قومی معیشت کیلئے مزید خطرات پیدا کردیے تھے جس میں خود تحریک انصاف کی اپنی حکومت کی ناقص پالیسیوں اور نااہلی کا بڑا حصہ ہے۔ سابقہ اتحادی دور میں بھی آئی ایم ایف پیکیج کیلئے مذاکرات کے وقت تحریک انصاف کی قیادت نے اپنی صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ مالیاتی ادارے کو تحریری طور پر بتادیں کہ پیکیج کی شرائط کی تکمیل میں ان کی جانب سے وفاق سے تعاون ممکن نہیں ہوگا۔ وقتی سیاسی مفادات کی خاطر قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کی اس روش پر ملک کے تمام باشعور حلقوں نے حیرت اور افسوس کا اظہار کیا تھا ۔ اس کے باوجود ایک بار پھر اسی طرزعمل کا اعادہ کیا جانا یقینا غیر مستحسن رویہ تھا تاہم متعلقہ حلقے توقع یہی کر رہے تھے کہ مالیاتی ادارہ مقامی سیاسی معاملات میں دخل اندازی کو اپنے حدود کار سے ماوراء قرار دے گا اور آئی ایم ایف کے جواب نے اس خیال کو درست ثابت کردیا ۔آئی ایم ایف کی ترجمان کے بقول ہمارا مینڈیٹ معاشی مسائل تک محدود ہے مگرہم معاشی استحکام اور ترقی کیلئے انتخابی تنازعات کے شفاف اور پرامن حل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں‘سرمایہ کاری اورملازمتوں کے فروغ کے حامی ہیں‘ہم نئی حکومت کے ساتھ موجودہ اسٹینڈ بائی قرض پروگرام کا دوسرے جائزہ مکمل کرنے کے علاوہ اس بات کے بھی منتظر ہیں کہ حکومت نئے میڈیم ٹرم معاشی پروگرام کے لیے درخواست کرتی ہے۔آئی ایم ایف کی ترجمان اور کنٹری نمائندہ ایسٹر پیریزنے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کو 28 فروری کو خط ملا یہ خط پاکستان کے قرض پروگرام سے متعلق ہے۔ ایسٹر پیریزنے خط پر ردعمل میں کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلق کا مقصد مالی استحکام ہے، ہمارا مقصد شہریوں کے فائدے کے لیے جامع ترقی ہے‘ پاکستان کے ساتھ رابطے کی روشنی میں آئی ایم ایف کا مقصد مضبوط پالیسیوں پر عملدرآمد کی حمایت کرناہے تاکہ تمام پاکستانی شہریوں کے فائدے کے لیے پائیدار اور نچلی سطح تک ترقی کی بحالی ہو ، ادائیگیوں کے توازن کے چیلنجز سے نمٹا جائے اور طویل مدتی معاشی استحکام قائم ہو۔ آئی ایم ایف کا یہ جواب پاکستان کے ساتھ کوئی خصوصی معاملہ نہیں بلکہ دنیا بھر میں اس کی مستقل پالیسی ہی یہ ہے۔اس کا ایک تازہ ثبوت حکومت بنگلہ دیش کے ساتھ آئی ایم ایف کا بھاری مالی تعاون کا معاہدہ ہے جبکہ وہاں اپوزیشن حکومتی رویوں کے حوالے سے سخت شکایات رکھتی ہے اور قومی انتخابات میں بھی بے قاعدگیوں کے الزامات عام ہیں۔ پاکستان کے حالیہ انتخابات کے بارے میں شکوک و شبہات کاازالہ عین قومی مفاد کا تقاضا ہے تاکہ ہماراسیاسی نظام مقامی اور عالمی سطح پر معتبر قرار پائے لہٰذا ملک بھر میں قائم کی جانے والی انتخابی عدالتوں کو کم سے کم ممکنہ مدت میں تمام شکایات کی تحقیقات کرکے حقائق کو سامنے لانا اور جائز شکایات کا ازالہ کرنا ہوگا ۔ یہ امر قابل اطمینان ہے کہ دوسرے جائزے کیلئے آئی ایم ایف کی تمام اہم شرائط پوری کرلی گئی ہیں اور آئندہ ماہ نئے پیکیج پر مذاکرات کے لیے دوسری سہ ماہی کے ضمن میں اقدامات جاری ہیں۔ پانچ سال کی آئینی مدت میں امید ہے کہ موجودہ حکومت بہتر حکمت عملی کے ذریعے ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی اور معاشی بحران سے مستقل بنیادوں پر نجات کی راہ ہموار ہوگی۔